جاپانی حکومت کے اہم ترجمان نے وزیراعظم یوشی ہیڈے سوگاکے بیٹے کی طرف سے دیئے گئے عشائیے میں شرکت پر عوامی دباﺅکے تحت اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وزیراعظم کی خاتون ترجمان مکیکو یمادا نے اس وقت استعفیٰ دیا ہے جب ان کی ایک پ±رتعیش اور نہایت مہنگے ڈنر میں شرکت کرنے پر سرزنش کرنے کا فیصلہ کیاگیا ۔جاپان کی حکومت نے مکیکو یمادا کے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یمادا کی طبیعت ناساز ہے اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ انہوں نے ذاتی وجوہ کی بناءپر استعفیٰ دیا ہے حالانکہ وزیراعظم چاہتے تھے کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں ۔جاپان کے نیشنل سول سروس کے ضابطہ اخلاق کے رولز کے تحت سرکاری ملازمین کو کمپنیوں یا افراد سے تحائف یا تفریحی دورے قبول کرنے اور بڑے کھانوں میں شرکت پر پابندی عائد ہے اور خلاف ورزی پر ملازمت سے برخاست کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم سوگا کے بیٹے کے ساتھ یمادا سمیت 11 بیوروکریٹس رات کا کھاناکھایاتھا اور کھانے کا فی کس بل 74 ہزار 203 جاپانی ین بنا تھا۔یمادا کی ڈنر میں شرکت کرنے پرپارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن ارکان نے ان سے پوچھ گچھ کرنا تھی تاہم وہ علالت کے باعث اس میٹنگ میں شرکت نہ کرسکی ۔یمادا کے استعفیٰ دینے کے بعد صورت حال بھی تبدیل ہوگئی ہے اب ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔فی الحال یہ واضح نہیں کہ پرتعیش دعوت اڑانے کے بعد یمادا کو فوڈ پوائزن ہوگیا ہے یا انکوائری شروع ہونے پر ہمارے سیاست دانوں والی بیماری انہیں لاحق ہوگئی ہے۔جاپانی حکومت کے سرکاری ترجمان کا عہدہ ہمارے ہاں گریڈ 22کے افسر کے برابر ہوتا ہے۔انہیں بخوبی علم ہوگا کہ دعوت قبول کرنے سے ان کی نوکری داﺅ پر لگ سکتی ہے نجانے کس مجبوری کے تحت بیچاری نے اپنے روزگار کو داﺅ پر لگادیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے، دھوکہ دہی سے کام نہیں لیتے، قانون کی مکمل پاسداری کرتے ہیں خواہ انہیں کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ جس معاشرے میں قانون کی بالادستی ہو اس معاشرے کو ترقی کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی جبکہ ہمارے ہاں قانون کی پاسداری نہ صرف قومی اور اخلاقی فریضہ ہے بلکہ ہمارا مذہب اسلام بھی ہمیں قانون کی سختی سے پاسداری کا درس دیتا ہے۔ مگر ہمارے حکمران، افسر شاہی اور بااثر لوگ فرائض کی بجا آوری ،اپنے آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی ادائیگی کو اپنی شان و شوکت کے منافی سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے قانون کی پاسداری جب اہم شخصیات اور حکمران کرتے ہیں تو وہ زیادہ قابل تقلید ہوتے ہیں اور اس سے معاشرے میں اچھی مثال قائم ہوتی ہے اور ایسا کرنے سے ان کی شان متاثر نہیں ہوتی بلکہ شان و شوکت میں اضافہ ہوتا ہے اس میں کیا شک ہے کہ تکبر کی بجائے عاجزی کسی انسان کی بڑائی کی نشانی ہے جبکہ ہمارے ہاں حالات اس کے برعکس ہیں قانون کی پاسداری کو کمزوری سمجھا جاتا ہے جبکہ قانون توڑنے اور اسے بائی پاس کرنے کے عمل کو طاقت اور عزت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ انصاف کے اس دہرے نظام کی وجہ سے ہم مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔جب کوئی قانون بنتا ہے تو قانون بنانے والوں سمیت اس ملک میں رہنے والے تمام لوگوں پر اس کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔جب تک حکمران اور بیوروکریسی خود پر قانون کا اطلاق نہیں کریں گے۔حکومت کی رٹ، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی والے مفروضات دیوانوں کی باتیں ہیں ۔