خیبرپختونخوا کے ڈاکٹروں نے وزیراعظم تک بذریعہ ’سٹیزن پورٹل‘ رسائی حاصل کرتے ہوئے 13نکاتی شکایات تحریراً ارسال کی ہیں‘ جن پر عمل درآمد کا جائزہ اور مطالبات کے حوالے سے صوبائی حکومت کا مو¿قف جاننے کے لئے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سے رائے طلب کی گئی ہے‘ مذکورہ مطالبات (چارٹر آف ڈیمانڈ) میں ڈاکٹروں کی صوبائی نمائندہ تنظیم نے جنرل کیڈرز کے ڈاکٹروں کی محکمانہ ترقی کی ضرورت پر زور دیا ہے جو عرصہ تین سال سے زیرالتوا¿ ہے۔ علاوہ ازیں مینجمنٹ کیڈر کی اٹھارہ‘ اُنیس اور بیس گریڈ میں ترقیاں‘ جنرل اور مینجمنٹ کیڈر میں ترقی کے لئے لازمی کورس کو سالانہ بنیادوں پر مستقل حکمت ِعملی کے تحت منعقد کرانے‘ میڈیکولیگل کیڈر کے قیام‘ غیرملکی اداروں کے گریجویٹس کےلئے وظائف کے ساتھ ہاو¿س جاب کے بندوبست‘ خیبرپختونخوا میں ڈاکٹروں کی چھ سو خالی آسامیوں پر ڈینٹل سرجنز کی بھرتیاں‘ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کےلئے مختص رہائشی مکانات خالی کرانے‘ غیرملکی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز سے فارغ التحصیل ہونے والے پاکستانی ڈاکٹروں کےلئے وظائف اور ہاو¿س جاب کا بندوبست‘ کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران ہنگامی بنیادوں پر جن 1000 ڈاکٹروں کی ایڈہاک بھرتی کی گئی تھی‘ اُن کی ملازمت کو مستقل سرکاری ملازمت میں تبدیل کرنا‘ ڈاکٹروں کے تبادلے‘ تعیناتیوں اور چھٹیوں سے متعلق قواعد پر نظرثانی اور اِنہیں سہل بنایا جائے اور میڈیکل و ہاو¿س آفیسرز (زیرتربیت ڈاکٹروں) کےلئے وظائف مقرر کرنے جیسے مطالبات شامل ہیں‘ خیبرپختونخوا میں علاج معالجے کی سہولیات اور شعبہ¿ صحت سے متعلق بندوبست دو الگ الگ موضوعات ہیں اور اِن دونوں مراحل میں اصلاحات کی ضرورت ہے‘ جو بنا ٹیکنالوجی روایتی انداز میں ممکن تو ہے لیکن اِس سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ مثال کے طور پر رواں ہفتے(تین مارچ) امریکی حکومت کے امدادی ادارے یو ایس ایڈ (USAID) کی جانب سے محکمہ¿ صحت کو فراہم کردہ کمپیوٹرآلات اور تربیت کا عمل مکمل ہوا‘ جس کا مقصد خیبرپختونخوا میں ’سرکاری شعبہ¿ صحت‘ کی کمپیوٹرائزیشن کرنا ہے۔ کمپیوٹروں کی چونکہ اپنی کوئی پسند ناپسند مخالفت یا ترجیح نہیں ہوتی‘ اِس لئے اِن کے اِستعمال سے بے قاعدگیوں اور بدانتظامیوں کو باآسانی روکا جا سکتا ہے اگر اِنہیں روکنا مقصود ہو۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ’مینجمنٹ انفارمیشن سسٹمز‘ دہائیوں سے استعمال ہو رہے ہیں لیکن اِن کی خاطرخواہ فعالیت اور خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں موجودگی یقینی نہیں بنائی جا سکی۔ کسی خاص شعبے اور اُس شعبے کی کسی خاص شاخ کےلئے امریکی امداد پر مشکور و ممنون ہونا اپنی جگہ لیکن برسرزمین ضرورت مختلف ہے۔ امریکی تعاون سے شوگر یعنی ذیابیطس(diabetic)‘ مریضوں کو ادویات کی مستقل بنیادوں پر فراہمی کا نظام اپنی جگہ اہم ہے کہ اِس کی وجہ سے ضلعی و دیہی سطح پر مرکزی علاج گاہوں پر مریضوں کا بوجھ کم ہوگا اور ادویات کا ذخیرہ اور فراہمی ایک ہموار انداز میں ممکن ہو گی۔ نئے نظام کے تحت سرکاری ہسپتالوں میں اُن مریضوں کے کوائف درج کئے جائیں گے جنہیں شوگر ہوتی ہے اور اُنہیں اِس کے لئے ادویات کی مستقل بنیادوں پر استعمال کرنا ہوتی ہیں۔ فیصلہ سازوں کو صوبائی محکمہ¿ صحت کی کمپیوٹرائزیشن کرتے ہوئے اُس افرادی قوت (ہیومن ریسورس) کی ضروریات بھی مدنظر رکھنی چاہیئں جو خود کو راندہ¿ درگاہ سمجھتا ہے۔ کورونا وبا سے متاثرہ مریضوں اور اِس وبا سے پیدا ہونے والے ہنگامی حالات پر قابو پانے میں ہر درجے کے طبی اور معاون طبی عملے کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خیبرپختونخوا کے 45 ڈاکٹروں کی اموات‘ جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے طبی سہولیات کی فراہمی اِس بات کا ثبوت اور یقین کا اظہار ہیں کہ ڈاکٹروں کی خدمات مشروط نہیں تھیں تو ڈاکٹروں کے ملازمتی ڈھانچے اور اُن سے متعلق قوانین و قواعد کے بارے تحفظات بھی اُسی خندہ پیشانی اور فراخدلی سے دور ہونے چاہیئں‘ جس کے وہ مستحق ہیں۔ ڈاکٹروں کو بھی اپنی اداو¿ں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن سے متعلق تین شکایات بطور خاص عام ہیں۔ 1: سرکاری علاج گاہوں میں ڈاکٹروں اور مریضوں کے درمیان تعلق و اِعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ 2: سرکاری علاج گاہوں کے وسائل نجی کلینکس اور ذاتی مفادات کےلئے استعمال ہوتے ہیں اور 3: ڈاکٹروں اور اَدویہ ساز اداروں کے درمیان تعلق کی قیمت (خیمازہ) مریضوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تینوں اَمور توجہ طلب ہیں اُور اِن تینوں کا حل ’کمپیوٹرائزیشن‘ میں ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے ڈاکٹروں کی حاضری بذریعہ ’بائیومیٹرک (اَنگوٹھے کے نشان)‘ درج کرنے کو معطل کر دیا گیا تھا جس کے بعد سے ماہر ڈاکٹروں (اسپیشلسٹ) کی بڑی تعداد حاضری کے اوقات اور حاضری کے ایام کی پابندی نہیں کر رہی۔ وقت ہے کہ نجی علاج گاہوں کی طرح ’کورونا قواعد (ایس اُو پیز)‘ مدنظر رکھتے ہوئے ’بائیومیٹرک حاضری‘ کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جائے جہاں سے یہ ’بہ امر مجبوری‘ منقطع کیا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطالبات جائز لیکن اگر اُن کے کام کاج (کارکردگی) کا احتساب سزا¿ و جزا¿ کے تصور کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے تو نہ صرف اجر و اجیر ایک دوسرے سے مطمئن ہوں گے بلکہ عام آدمی (ہم عوام) کا بھی بھلا ہوگا۔”ہر قدم پہ ہو احتساب ِعمل .... اِک قیامت پہ انحصار نہ ہو۔“