وزیر اعظم عمران خان نے قبائلی اضلاع کی ترقی پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاہے کہ صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کی ترقی کو اولین ترجیح دے اور ترقیاتی منصوبوں کو جلد مکمل کیا جائے، قبائلی اضلاع کے غیور شہریوں نے ملک کے لئے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اسی لئے ان کے علاقوں کی ترقی حکومت کا فرض ہے۔وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے بھی ضم اضلاع میں صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے سلسلے میں اکنامک زون ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کو ضم اضلاع میں انڈسٹریل اسٹیٹس کے قابل عمل منصوبوں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اْنہوں نے متعلقہ حکام کو ضم اضلاع کے تمام بڑے ہسپتالوں میں بائیو میٹرک سسٹم کے اجراء، سرکاری سکولوں کے جاری منصوبوں پر کام تیز کرنے، ضرورت کی بنیاد پر متعلقہ منتخب عوامی نمائندوں کی مشاورت سے نئے سکولوں کے قیام منصوبے تیار کرنے اورچھوٹے پن بجلی گھروں کے قیام کے لئے قابل عمل منصوبوں کی نشاندہی کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔وزیر اعلیٰ نے ضم اضلاع کی ضلعی انتظامیہ کو مقامی سطح کے عوامی مسائل کے بروقت حل کے لئے کھلی کچہریوں کے باقاعدہ انعقاد کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ نے ضم اضلاع میں بجلی کے ٹرانسفارمرز اور پولز کی خریداری اور بجلی سے جڑے دیگر مسائل کے حل کیلئے اگلے سالانہ بجٹ میں تمام حلقوں کے لئے فنڈز فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ضم اضلاع میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے اے ڈی پی اور اے آئی پی کے تحت رواں بجٹ میں مجموعی طور پر 83 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے،ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت اپنے وعدوں کے مطابق قبائلی اضلاع کیلئے این ایف سی ایوارڈ سے اپنا تین فیصد حصہ دے رہی ہیں دیگر صوبوں کو بھی چاہیئے کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں سے ضم اضلاع کیلئے اپنا شیئر فراہم کرنے کا وعدہ پورا کریں جس کیلئے صوبائی حکومت ہر فورم پر آواز اٹھا رہی ہے۔ علاقہ غیر کہلانے والے قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے وقت ہی ہوچکا تھا تاہم اس حوالے سے عملی اقدامات کا سہرا تحریک انصاف کی حکومت کے سر ہے۔فاٹا کے انضمام کا فیصلہ چاروں صوبوں نے اتفاق رائے سے کیا تھا اور یہ بھی طے پایاتھا کہ تمام صوبے اور وفاق قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ سے اپنے حصے کے تین فیصد وسائل ضم اضلاع کی تعمیر و ترقی کے لئے دیں گے۔2018ء کے انتخابات میں قبائلی علاقوں سے بھی عوام کے منتخب نمائندے خیبر پختونخوا اسمبلی کا حصہ بن چکے ہیں۔ صوبائی حکومت پر ایک کروڑ کی قبائلی آبادی کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔ وہاں تباہ حال انفراسٹرکچر کی بحالی، صحت اور تعلیمی اداروں کے قیام،سڑکوں اور پلوں کی تعمیراور کاروباری و معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے لئے خطیر رقم درکار ہے مگر سندھ، پنجاب اور بلوچستان نے دو سالوں میں این ایف سی ایوارڈ سے اپنے حصے کی ایک پائی بھی ضم اضلاع کے لئے مختص نہیں کی جس کی وجہ سے وہاں تعمیروترقی کا عمل وسائل کی کمی کے بعد سست روی کا شکار ہے۔