دوطرفہ مطالبات 

راندہئ درگاہ (پانچ مارچ) کے عنوان سے خیبرپختونخوا کے ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ”پروانشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن“ کے مطالبات بنام وزیراعظم کا ذکر کیا گیا‘ جو بذریعہ ’سٹیزن پورٹل‘ تحریراً پیش کئے گئے جس کے بعد صوبائی محکمہ صحت نے ڈاکٹروں کے نمائندہ وفد کو طلب کر کے مذاکرات کئے ہیں اور اِن مذاکرات کا احوال یہ ہے کہ پی ڈی اے کے چیئرمین ڈاکٹر زبیر ظاہر کی قیادت میں وفد کی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز خیبر پختونخوا ڈاکٹر نیاز کے ساتھ ملاقات میں صوبائی حکومت کی جانب سے مسائل کے حل کی یقین دہانی کروائی گئی ہے جبکہ ڈاکٹروں کے وہ مسائل کہ جن کا تعلق آئینی قواعد سے ہے اُن کے حل کے لئے سیکرٹری صحت اور صوبائی گورنمنٹ کے ساتھ مذاکرات ہوں گے جس سے ڈاکٹروں کے تحفظات دور ہو سکیں۔ مرحلہئ فکر ”ذہنی طور پر آسودہ حال“ہونے کا ہے کہ اگر ڈاکٹر مطمئن نہیں ہوں گے تو سرکاری علاج گاہوں سے استفادہ کرنے والوں کو اطمینان نہیں ہوگا اور ہر سال اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہونگے۔ اِسلئے بہتر یہی ہے کہ انسانی وسائل (ڈاکٹروں) کی بہبود میں بھی سرمایہ کاری کی جائے۔ڈاکٹروں کے نمائندہ وفد اور صوبائی محکمہئ صحت کے سربراہ کے درمیان ہوئی ملاقات میں ڈاکٹر ولی اللہ شہید کے اہل خانہ کے لئے شہدا ئپیکج کے حوالے سے بات چیت ہوئی‘ جسے جاری کر دیا گیا حالانکہ یہ کام کسی کے توجہ دلائے بغیر بھی ازخود ہو جانا چاہئے تھا۔ محکمانہ فرائض کی بجاآوری کے دوران کسی وجہ سے یا امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث شہید ہونے والے طبی اور معاون طبی عملے کے لئے شہدا ء پیکج اگر موجود ہے تو یہ ازخود کیوں نہیں دیا جاتا اور اِس پیکج کی ادائیگی مطالبات سے کیوں مشروط ہو گئی ہے‘ اِس سلسلے میں بھی غور ہونا چاہئے۔ حال ہی میں ضم ہوئے قبائلی اضلاع میں ڈاکٹروں کو تعینات کرنے کے لئے چار درجاتی فارمولے کے تحت اپ گریڈیشن کے سلسلے میں بھی عملی اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو ایک دیرینہ مطالبہ تھا اور اُمید ہے کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لئے جو ڈاکٹروں انتخاب کے مرحلے کو عبور نہیں کر سکے اُن کے تحفظات بھی جلد دور ہو جائیں گے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے وزیراعظم سے رجوع کرنے کا فیصلہ کتنا درست اور کارگر ثابت ہوتا ہے اِس کا علم آئندہ بیس سے چالیس روز کے درمیان ہو جائے گا جو کسی عوامی شکایت کو حل کرنے کا کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مقررہ عرصہ ہے۔ درخواست میں یہ استدعا بھی گئی ہے کہ جنرل کیڈر ڈاکٹروں کی عرصہ تین سال سے زیرالتواء ترقیاں کی جائیں اور محکمانہ ترقی کے قواعد کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ اِسی طرح مینجمنٹ کیڈرز میں ڈاکٹروں کی گریڈ اٹھارہ میں اپ گریڈیشن اور سینئرڈاکٹروں کی مسائل حل کرنے کے لئے ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر کمیٹی قائم کرنے‘ عارضی بھرتیاں (ایڈہاک ڈاکٹروں) کی ریگولیشن‘ چھ سو ڈینٹل سرجنز کی اسامیوں پر بھرتیاں‘ ڈاکٹروں کی رہائش گاہوں سے غیر متعلقہ افراد کو نکالنا‘ تمام کیڈرز کی ڈاکٹرز کی بروقت محکمانہ ترقیوں جیسے امور شامل ہیں۔ زیرغور آنے والے امور میں بیرون ملک سے میڈیکل اور ڈینٹل تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ کے لئے پاکستان میں ہاؤس جاب کی نشستیں مقرر کرنا‘ کوہاٹ میڈیکل کالج کی عمارت کے ساتھ طلبہ کے لئے قیام گاہ (ہاسٹل) کی تعمیر‘ ہاؤس آفیسرز‘ میڈیکل آفیسرز اور ٹرینی میڈیکل آفیسرز کی تنخواہوں میں اضافہ‘ ڈاکٹرز کے تمام کیڈرز کے لئے تربیت کا سالانہ شیڈول جاری کرنا‘ ڈاکٹروں کی پوسٹنگ ٹرانسفرز اور ڈاکٹروں کے لئے ملازمتی قواعد میں نرمی جیسے مطالبات شامل ہیں۔مطالبات یک طرفہ کیوں ہیں؟ صوبائی محکمہئ صحت اور ڈاکٹروں کے درمیان ہوئے مذاکرات کا ”پہلا دور (چار مارچ)“ سے قبل بھی اِس قسم کی درجنوں ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور اِس مرتبہ بھی ملاقات میں جس سطح پر مسائل کے حل کی یقین دہانی کروائی گئی ہے وہ پائیدار اور کافی نہیں جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ صحت کے شعبے میں صرف ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ معاون طبی عملے اور غیرطبی عملے کے مسائل کو اجتماعی طور پر دیکھا جائے کیونکہ اگر ڈاکٹر ہڑتال نہیں کریں گے تو معاون طبی و غیر طبی عملہ ہڑتال کر دے گا اور ماضی گواہ ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں حکومت نے کسی ایک فریق سے بات چیت کی اور مطالبات تسلیم کئے تو اُسی شعبے کے دیگر سرکاری ملازمین نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج شروع کر دیا‘ جس سے نمٹنے کے لئے ایک مرحلے پر حکومت کو سرکاری علاج گاہوں کی درجہ بندی تک تبدیل کرنا پڑی لیکن ماضی و حال میں ایسی مثال موجود نہیں کہ ہڑتال کرنے والوں کے خلاف اعلانیہ کاروائیوں کو برقرار رکھا گیا ہو۔ ڈاکٹروں سے مذاکرات کرتے ہوئے صوبائی محکمہئ صحت کے فیصلہ سازوں کے پاس نادر موقع ہے کہ وہ اپنے چند مطالبات بھی ڈاکٹروں کے سامنے پیش کریں‘اتفاق رائے سے طے ہونا چاہئے کہ اگر کسی ڈاکٹر کو قواعد کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو اُس کے خلاف زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کاروائی کیا ہوگی۔ اِسی طرح اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لئے نقد انعامات‘ محکمانہ ترقی اور تعارفی اسناد کا اجراء جیسی پرکشش مراعات کا اعلان بھی ضروری ہے۔