جب قواعد وضوابط پر عمل نہیں کیاجاتا جب قوانین کو نہ صرف نظرانداز کیاجاتاہے بلکہ پیروں تلے روندا جاتاہے جب پالیسیوں کو زندہ درگور کیا جاتاہے تووہی ہوتاہے جو عرصہ دراز سے پشاور کے ساتھ ہوتا چلاآرہاہے شہر تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو تعمیرات میں بھی تیزی آتی گئی اور اس تیزی کی رفتارمزید بڑھی تو معاملہ بے ہنگم سے ہوتاہوا غیرقانونی تعمیرات کی طرف جانکلا اوراس کے بعدچل سوچل،چنانچہ خوبصورت شہر پشاور کا حلیہ بگڑتاچلاگیا تعمیرات کے معاملہ میں دھڑلے سے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی چونکہ شہر تیزی سے پھیل رہاتھا اس لئے زمینوں کی کمرشلائزیشن کے عمل میں بھی تیزی آتی گئی اور اسی کی وجہ سے پھر نقشوں کے برخلاف پلازے،مارکیٹیں اور شاپنگ کمپلیکسز بنائے جاتے رہے اورآخرکا ر اب اس وقت پشاور میں پارکنگ کامسئلہ سراٹھائے کھڑا ہوچکاہے ظاہر ہے اس تمام عرصہ میں لوگوں کے پاس گاڑیاں بھی آتی گئیں چنانچہ اس وقت شہر میں کوئی جگہ بھی ایسی نہیں ملے گی جہاں پارکنگ سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کاسامنا نہ کرناپڑرہاہواس ضمن میں سرکاری اداروں کی طرف سے شروع میں توغفلت روا رکھی گئی تاہم پھر باامرمجبوری اس جانب توجہ دی گئی تو عملی اقدامات کی نوبت کم ہی دکھائی دی کچھ عرصہ قبل کہاگیاتھاکہ پشاور کے سب سے گنجان آباد ٹاؤن ون میں اس حوالہ سے کاروائی کی جائے گی مگر ٹاؤن ون کے علاقوں میں پارکنگ نہ رکھنے والے پلازوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز تاحال نہ ہوسکا، ٹاؤن ون کی حدود میں دلہ زاک روڈ، گل بہار مین روڈ، زریاب کالونی، رامداس روڈ ڈبگری، فردوس بازار، رام پورہ گیٹ، اشرف روڈ، آسامائی روڈ، ہشت نگری چوک، ناز سینما روڈ، سیٹھی ٹاؤن، چارسدہ روڈ، پجگی روڈ پر 122 پلازوں کا معائنہ کیا گیا جن میں سے 52 پلازوں میں ابتدائی نقشوں کے برعکس پارکنگ نہ تھی بلکہ ان کے تہہ خانوں میں دکانیں بنائی گئی ہیں نومبر میں ان پلا زہ مالکان کو تہہ خانے کھولنے کے نوٹس دئیے گئے تاہم پلازہ مالکان نے سرکاری نوٹس کو سنجیدہ نہیں لیا اور پارکنگ قائم نہیں کی دلہ زاک روڈ کے 32 میں سے 8 پلازوں میں پارکنگ نہیں ہے ناز سینما روڈ اور آسامائی روڈ پر تین تین پلازوں کے تہہ خانوں میں کمرے اور دکانیں ہیں، اشرف روڈ کے پانچ پلازوں میں پارکنگ نہیں، رامپورہ گیٹ میں 3پلازوں میں پارکنگ نہیں ہے، سیٹھی ٹاؤن اور فردوس کے چار چار پلازے بغیر پارکنگ کے بنائے گئے ہیں ان پلازوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم ابھی تک آپریشن کا آغاز نہ ہوسکا۔یاد رہے کہ سابق ڈسٹرکٹ ناظمین کے دور میں بھی پارکنگ نہ ہونے کا نوٹس لیا گیا تھا تاہم بعد میں بوجوہ ان کے خلاف کوئی مو ثر کاروائی دیکھنے میں نہیں آسکی اور آج کئی پلازوں میں باقاعدہ تہہ خانے تو بنے ہوئے ہیں لیکن پارکنگ کی بجائے ان تہہ خانوں میں کمرے اور دکانیں بنائی گئی ہیں، پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی رہتی ہیں اور ٹریفک جام کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے قانون بھی یہ ہے کہ پلازوں میں باقاعدہ پارکنگ کا بندوبست ہونا چاہئے اور جن پلازوں کے پاس پارکنگ نہیں انہیں بند کردینا چاہئے یا انہیں نوٹس دینا چاہئے کہ پارکنگ کا بندوبست کریں، چونکہ پلازہ مالکان بااثر شخصیات ہیں وہ سرکاری نوٹسز پر عمل کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں، حالانکہ ان پلازوں میں تہہ خانوں کا مقصد گاڑیوں کی پارکنگ کا ہے لیکن مالکان نے پارکنگ کے بجائے ان تہہ خانوں کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ بغیر پارکنگ 52 پلازوں کے خلاف آپریشن میں تاخیرکے بارے میں حکومت کو تحقیقات کرنی چاہئیں کہ کیا وجہ ہے کہ پلازہ مالکان پارکنگ نہ ہونے کے نوٹسز کا جواب نہیں دے رہے ہیں ان پلازوں سے مالکان کو کرایہ کی مد میں خاصی آمدنی ہورہی ہے لیکن پارکنگ کی سہولت دینے سے تاحال یہ انکاری ہیں۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے یہ تو ان پلازوں کی بات ہوئی جہاں پارکنگ موجودہے مگر استعمال کچھ اور اگر دیکھاجائے تو ٹاؤن ون اورٹاؤن تھری کے مختلف علاقوں میں ایسے پلازوں کی بھرمارہے جہاں پارکنگ کاحصہ سرے سے رکھاہی نہیں گیااب ان کے حوالہ سے بھی حکومت کو کچھ نہ کچھ کرناہوگا ایک تجویزیہ آئی تھی کہ ایسے پلازوں کے گراؤنڈ فلورز کو مکمل طورپر خالی کروا کر وہاں پارکنگ کی سہولیات مہیاکرنی چاہئیں اور پھر گراؤنڈ فلوروالوں کو فرسٹ اورفرسٹ والوں کو سیکنڈ فلور میں شفٹ کیاجاسکتاہے اس سلسلہ میں بھی حکومت کو کوئی نہ کوئی حکمت عملی ضرورترتیب دینی چاہئے تاہم اس کے ساتھ ساتھ اب نئی تعمیرات کے معاملہ میں تو سختی کے ساتھ بلڈنگ کوڈز پر عملدر آمد کویقینی بناناہوگا ٹاؤن ون میں اعلان کے مطابق آپریشن کرکے پھراس کادائرہ کارپورے شہر تک پھیلایاجاسکتاہے کیونکہ اگر آج سخت ترین اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے دنوں میں صورت حال پہلے سے بھی بدتر ہوسکتی ہے۔