ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو۔۔۔

عوام کےلئے ایک خوشخبری یہ آئی ہے کہ وفاقی حکومت نے سرکاری سٹورز پر بڑا رمضان پیکج دینے کی تیاری کرلی ہے، وزارت صنعت و پیداوار نے6 ارب37 کروڑ روپے سے زائد کارمضان ریلیف پیکج تجویز کیا ہے،رمضان کے دوران سرکاری سٹور پرچینی 68 روپے،20 کلو آٹے کا تھیلا 800 روپے، گھی 200روپے فی کلو عوام کو فراہم کرنے کی تجویز ہے ،چائے کی پتی پر 50 اور دودھ پر 20 روپے سبسڈی دی جائے گی رمضان پیکج کے تحت 19 اشیائے ضروریہ پردس سے 50 روپے تک سبسڈی دینے کا اصولی فیصلہ کیاگیا ہے۔رمضان ریلیف پیکج کی سمری وزارت صنعت و پیداوار نے تیارکرکے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو ارسال کر دی ہے،خوردنی تیل پر 20، دال چنا پر 15روپے، دال ماش اور دال مونگ پر 10,10روپے ،دال مسور پر 30 روپے ،دال چناپر25 اور بیسن پر 20 روپے فی کلوسبسڈی تجویز کی گئی ہے،کھجور پر20 روپے ، باسمتی اورسیلا چاول پر دس دس روپے جبکہ ٹوٹاچاول پر12 روپے فی کلو سبسڈی دینے کی تجویز ہے،ڈیڑھ لٹرمشروبات کی بوتل پر 25 روپے اور800 ملی لٹر بوتل پر20 روپے سبسڈی تجویزکی گئی ہے۔اس پر مرزا غالب کا یہ شہرہ آفاق شعر رہ رہ کر یاد آتا ہے کہ ” مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام۔ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں“ہم بھی حیران ہیںکہ اوپر بیٹھے لوگ ”عام آدمی“ پر اتنے مہربان کیسے ہوگئے۔ اس کی دو قابل فہم وجوہات ہوسکتی ہیں یا تو سبسڈی والی چیزیں معیار کے لحاظ سے کم ہوں گی گوداموں پر پڑی سڑرہی ہوں گی اس لئے سوچا گیا ہوگا کہ عوام کو خوش کرتے ہیں ان کا رمضان اچھا گذرے گا۔ کچھ لوگ دعائیں دیں گے اور غریب کی دعائیں رمضان میں قبول بھی ہوتی ہیںاس طرح بڑے لوگوں کے کچھ گناہ جھڑ جائینگے دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ارباب اختیار میں فی الواقع خوف خدا پیدا ہوا ہوگا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ واقعی چمتکار ہے۔ اس کی وجہ کورونا کی وباءبھی ہوسکتی ہے۔ خوف کے مارے بڑوں نے فیصلہ کیاہوگا اس سے پہلے کہ انہیں کچھ ہوجائے۔ اپنے فرائض منصبی جاتے جاتے دیانت داری سے ادا کریںتاکہ اگلے جہاں کے لئے کچھ ہاتھ آجائے ۔ فیصلے کی وجوہات پر بحث کرنا فی الحال قبل از وقت معلوم ہوتا ہے۔ فیصلے بدلنے میں اتنا ہی مختصر وقت لگتا ہے جتنا وقت نیت بدلنے میں لگتا ہے۔ ابھی رمضان کی آمد میں پانچ ہفتے پڑے ہیں ۔ریلیف پیکج کونسا اگلے ہی ہفتے ملنا شروع ہوگا۔ابھی تو سمری گئی ہے وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں زیربحث آئے گی۔ کمیٹی اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی۔ کابینہ کی منظوری کے بعد معاملہ وزارت خزانہ کو بھیجا جائے گا۔ وہاں سے وزارت صنعت و تجارت تک فائل سفر کرکے جائے گی۔ یہ سب مراحل خوش اسلوبی سے مکمل ہونے کے باوجود بھی ثمرات عوام تک پہنچنے کے امکانات ففٹی ففٹی ہیں کیونکہ سرکاری سٹورز کو مال سپلائی کرنے والے اور خود بعض لوگ بھی کافی استاد قسم کے لوگ ہیں وہ رعایتی چیزیں باہر باہر سے بازار پہنچا کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں عوام کو ٹرخانے کےلئے اتنا کہنا ہی کافی ہوتا ہے” سبسڈی والا مال ابھی نہیں آیا۔اگلے ہفتے پتہ کریں“کوئی ضدی قسم کا گاہک ہی ہوگا جو ان کے وعدے پر اعتبار کرکے اگلے ہفتے دوبارہ جاکر پوچھے گا۔ پاکستان کا ”عام آدمی“ ریلیف کے معاملے میں کافی بدقسمت واقع ہوا ہے۔ حکومت مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے ریلیف کا اعلان کرتی ہے اس دوران مال بنانے اور بڑے پیمانے پر سپلائی کرنے والے لوگ اچانک قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور جب رمضان پیکج کی تقسیم کا وقت آتا ہے تو قیمتوں میں رعایت کے باوجود عوام کو چیزیں مارکیٹ کے نرخوں پر ہی ملتی ہیں بہر مایوسی گناہ ہے ہمیں اچھے وقت کی امید رکھنی چاہئے برے وقت کا تو ہمیشہ سامنا رہتا ہے۔ اگر درمیان میں کچھ عرصے کےلئے اچھا وقت آئے تو یہ قسمت کے مارے غریبوں کے لئے ریلیف ہی تو ہے۔