موسمی تغیر: ہنگامی حالات۔۔۔۔

محسوس (یقینی) اور غیرمحسوس (غیریقینی) پر مبنی حالات درپیش ہیں لیکن قومی ترجیحات کا قبلہ درست نہیں۔ فیصلہ سازوں اور عوام کی اکثریت جس ایک حقیقت سے بے خبر ہے‘ وہی سروں پر منڈلانے والا ’بڑا خطرہ‘ ہے۔ توجہ طلب ہے کہ سیاسی حالات کی وجہ سے جس اہم موضوع پر نہایت ہی کم یعنی حسب ضرورت غوروخوض نہیں ہو رہا‘ وہ ماحولیاتی تغیر (climate change)‘ ہے کیونکہ اِس تبدیلی سے زرعی معیشت و معاشرت‘ جو پہلے ہی شدید دباو¿ میں ہے مزید دباو¿ محسوس کر رہی ہے۔ فصلوں کی کاشت اور فی ایکڑ پیداوار میں ہر سال کمی ہو رہی ہے جبکہ وہ بنیادی غذائی اجناس جو پاکستان کی اپنی ضرورت کےلئے مقامی طور پر پیداوار کے ذریعے حاصل کی جاتی تھیں اب اُن کی درآمد ایک مستقل ضرورت بن گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ دال ساگ کا محاورہ بولا جاتا تھا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ دالیں ساگ اور دیگر سبزی کے ہائبرڈ بیج تک درآمد ہوتے ہیں۔ ’موسمی تغیرات کا منفی اثر‘ زرعی کارکردگی کو متاثر کرنے کا باعث ہے جس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ زرعی شعبے کی کارکردگی آنے والے ماہ و سال میں مزید خراب ہو گی!محکمہ موسمیات کی جانب سے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق اگر جنوری 2021ءکا موازنہ گزشتہ برس (دوہزاربیس) سے کیا جائے تو اِس سال نہایت ہی کم بارش ہوئی ہے اُور پاکستان میں گزشتہ 17 ماہ کا عرصہ کم بارشوں کے لحاظ سے 60 سال کا خشک ترین عرصہ رہا ہے۔ جنوری دوہزار اکیس کی طرح فروری دوہزار اکیس کے دوران بھی بارشیں سالانہ تناسب سے کم ہوئی ہیں اُور جب ہم یہ بات کہہ رہے ہوتے ہیں کہ 17 ماہ کے دوران ہوئی بارشوں کا تناسب ساٹھ سال میں کم ترین سطح پر ہے تو اِس کا مطلب ہوتا کہ بارانی علاقوں میں فصلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے‘ جہاں سے پھل اُور سبزی حاصل ہوتی ہے اگر اُن علاقوں میں بارش نہ ہو تو آبپاشی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہوتا۔ یہ اَمر بھی لائق توجہ ہے کہ حکومت ایک ارب درختوں کے ذریعے جس وسیع شجرکاری مہم کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے‘ بارشیں اُس کے لئے بھی ضروری ہیں اُور شہری علاقوں میں رہنے والوں کے لئے یہ بات تشویش کا باعث ہونی چاہئے کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ پینے کا وہ صاف پانی جو زیرزمین ذخیرے سے بذریعہ ٹیوب ویل حاصل کیا جاتا ہے اُس کی حفاظت اُور احتیاط سے استعمال بارے قومی پالیسی اُور ہنگامی حالت کا اعلان ہونا چاہئے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ موٹرگاڑیوں کو دھونے کے لئے زیرزمین سے صاف و شفاف پانی حاصل کیا جاتا ہے اُور آلودہ پانی بنا تطہیر (صاف) کئے بہا دیا جاتا ہے۔ ہر روز اربوں گیلن پانی ضائع ہونے کو اگر نہ روکا گیا اُور خشک سالی بھی اِسی طرح جاری رہی‘ کہ جس میں تبدیلی کے آثار نہیں تو پاکستان کے اُن علاقوں میں بھی پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی جہاں فی الوقت چشمے پھوٹ رہے ہیں اُور برفانی تودوں سے پانی میسر ہے۔خلاف معمول ہے کہ موسم سرما کے دوران بھی بارشیں نہ ہوں۔ غور طلب ہے کہ پاکستان میں جنوری دوہزاراکیس کے دوران 59فیصد کم بارش ہوئی جس سے سندھ‘ بلوچستان اُور خیبرپختونخوا بالترتیب زیادہ متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار محکمہ¿ موسمیات کے لئے تعجب کا باعث ہیں کہ ساٹھ سال میں کبھی بھی اِس قدر خشک سالی نہیں دیکھی گئی اور یہی وجہ ہے کہ محکمہ¿ موسمیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے فیصلہ کیا ہے کہ وفاقی اُور صوبائی سطح پر تین ماہ میں ہوئی بارشوں اُور درجہ¿ حرارت کے بارے میں صورتحال پر مبنی ایک جامع قومی جائزہ لیا جائے جو رواں ماہ (مارچ دوہزاراکیس) کے آخر میں ہوگا۔ ماہرین موسمیات کے لئے جنوری سے مارچ (سہ ماہی) کے دوران ہونے والی بارش کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچا جائے گا کہ بارشوں میں کمی کے اسباب (وجوہات) کیا ہیں اُور اِن میں تبدیلی کے لئے کونسے اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں فیصلہ سازی کی سطح پر محکمہ¿ موسمیات کی جانب سے تجاویز اور رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی لیکن اِس تجاہل عارفانہ کی بدولت پاکستان جس مقام تک آ پہنچا ہے‘ وہاں دانشمندی اِسی میں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی جیسی حقیقت کو تسلیم کیا جائے اور پانی کے استعمال میں احتیاط سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کیا جائے۔ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ پاکستان دنیا کے اُن 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہیں لیکن اِس کے باوجود بھی ماحولیاتی تنوع کو نقصان پہنچانے والے عوامل جیسا کہ مضرماحول گیسوں کے اخراج اور صنعتی فضلے کو کم نہیں کیا جا رہا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ موسلادھار بارشوں‘ سیلاب اور برفانی تودے پگھلنے کی رفتار سے پیدا ہونے والی صورتحال پہلے ہی تشویشناک ہے اور اگر ماحولیاتی تغیرات کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اِس سے زرعی شعبے کا نقصان ہوگا جو پہلے ہی ناقابل برداشت حد کو عبور کر چکا ہے۔پاکستان میں موسمیاتی تغیرات اور اِن سے ہونے والے نقصانات کا اِس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 20 برس میں 150 موسمیاتی آفات رونما ہوئی ہیں اُور پاکستان کے فضائی درجہ¿ حرارت میں خطے کے ممالک اُور دنیا کے مقابلے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔