نئی امتحانی پالیسی۔۔۔۔

وفاقی حکومت نے تعلیمی اداروں کی امتحانی پالیسی تبدیل کرنے کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت امتحان پاس کرنے کے نمبرات کی شرح 33 کے بجائے 40کردی گئی ہے۔وفاقی نظام تعلیمات کے مطابق پہلے مرحلے میں پالیسی کا نفاذ وفاقی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں ہوگا ۔بعد ازاں پورے ملک میں یہ پالیسی نافذ کی جائے گی۔ نئی پالیسی کے مطابق پاس ہونے کیلئے 75 فیصد حاضری بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ دو سے زیادہ مضامین میں فیل ہونے والا طالب علم فیل تصورقرار دیا جائے گا۔نئی پالیسی کا اطلاق 2021 ءکے امتحانات میں ہو گا۔وفاقی وزیر تعلیم کے مطابق صوبوں اور نجی تعلیمی اداروں کو پیس ایجوکیشن سمیت اضافی مواد پڑھانے کی اجازت دی گئی ہے، ایلیٹ پرائیویٹ سکولز میوزک اور رقص کی کلاسز بھی دے سکتے ہیں ‘دینی مدارس بھی اپنے نصاب میں درس نظامی کا اضافی مواد پڑھا سکتے ہیں۔ ملک بھر میں مدارس کی رجسٹریشن جاری ہے ‘وفاقی وزارت تعلیم کے مذہبی تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ کے زیر انتظام سولہ رجسٹریشن مراکز قائم کئے گئے ہیں ‘وزیرتعلیم کے مطابق اب تک دو ہزار مدارس رجسٹر ہو چکے ہیں،مدارس کے مطالبے پر پانچ نئے بورڈز بھی بنائے گئے ہیں۔پاس نمبرات کی شرح بڑھانے اور 75فیصد حاضری کی شرط سے تعلیم کامعیار بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ملک میں تعلیم عام کرنا، اس کا معیار بہتر بنانا اورملک بھر میں یکساں نظام تعلیم لانا پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشور کی ترجیحات میں سرفہرست تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کو اپنے منشور پر عمل کرنے کا اب تک موقع ہی نہیں ملا۔ پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت حاصل ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے مقابلے میں حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی بجائے عوام کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔قومی تعمیروترقی کے منصوبے پیش کرکے حکومت کو ان پر عمل درآمد پر مجبور کرنے کے بجائے تعمیروترقی کا پہیہ جام کرکے رکھ دیاگیا۔ کبھی ملازمین کو تنخواہوں میں اضافے کے لئے جلسے جلوس اور دھرنوں پر اکسایاجاتا ہے تو کبھی نجکاری کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع کی جاتی ہیں۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے کورونا کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑی ہیں۔صنعتوں کا پہیہ بھی رک کرچل رہا ہے۔ مختلف محکموںمیں ڈاﺅن سائزنگ کرکے ہزاروں ملازمین کو فارغ کردیا گیا۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے ۔بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور پولٹری مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔جاری ترقیاتی کاموں کو رواں دواں رکھنے اور ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی حکومت کو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے لینے پڑے ہیں قرضہ دینے والوں کی سخت شرائط کو پورا کرنے کے لئے عوام کو مختلف چیزوں پر دی گئی سبسڈی ختم کردی گئی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کے لئے تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہوگیا۔ تاہم دہرے نظام تعلیم کو ختم کرنا ایک ناگزیر قومی ضرورت ہے جس کے بغیر قومی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ہمارا نصاب تعلیم فرسودہ ہوچکا ہے۔ درسی کتابوں میں موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے اپنی افادیت کھوچکے ہیں جبکہ پرائیویٹ ادارے پیسے بنانے کی فیکٹریاں بن چکی ہیں یونیورسٹیوں کی فیسوں میں ہوشرباءاضافہ کرکے غریب اور متوسط طبقے کے ہونہار بچوں پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔تعلیمی نظام کو موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق بنانے کے لئے حکومت سمیت ملک کی سیاسی قیادت کوسرجوڑ کر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔یہ پوری قوم کے مستقبل کا سوال ہے اور اس اہم ذمہ داری کی بجاآوری میں حکومت اور اپوزیشن سمیت ملک کی سیاسی قیادت کی کوتاہی ناقابل قبول ہے۔