تعلیمی وظیفہ۔۔۔

اصول تو یہ ہے کہ طب (میڈیکل اور ڈینٹل) کی تعلیم کا تعلق ”اہلیت‘ قابلیت اور ذہانت“ پر ہونا چاہئے لیکن عمل یہ ہے کہ تمام تر اصلاحات کے باوجود بھی ”میرٹ‘ کوالیفیکیشن اور انٹیلی جنس“ جیسی خصوصیات کا غلبہ حکومتی فیصلہ سازوں کی ترجیحات پر نہیں جس سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ طب کی تعلیم پر حق اُسی اکثریت کا ہے جس کے پاس تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی مالی سکت نسبتاً زیادہ ہے۔ یہ صورتحال اِس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ اہلیت‘ قابلیت اور ذہانت کی دھجیاں بکھیرنے سے متعلق شکایات کے انبار اور ناقابل تردید شواہد کے باوجود اُن نجی اداروں کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی جو اعلیٰ تعلیم کو خریدوفروخت میں ملوث پائے گئے ہیں اور جنہوں نے تعلیم کو ایک کاروبار اور جنس سمجھ لیا ہے۔پاکستان میں طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی تعلیم کے نگران ادارے ”میڈیکل کمیشن‘ ‘کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا ہے کہ ”اِس بات کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی کہ اہلیت کے باوجود بھی طلبہ کو داخلوں سے محروم کیا جائے اور اہلیت اور خواہش کے باوجود بھی کوئی طالب علم صرف اِس وجہ سے طب کی تعلیم حاصل نہ کر سکے کیونکہ اُس کے پاس یہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے مالی وسائل موجود نہیں ہیں۔ ایسے طلبہ جو اہلیت تو رکھتے ہیں لیکن تعلیمی اخراجات کو برداشت کرنے کے لئے خاطرخواہ مالی وسائل نہیں رکھتے‘ اُن کے لئے پاکستان میڈیکل کمیشن نے تعلیمی وظائف دینے کا اعلان کیا ہے جس کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں کہ طب کی تعلیم کے لئے اہلیت اور داخلے کی خواہش رکھنے والے تمام طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملنا چاہئے بلکہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے ”کم سے کم اہلیت“ کے لئے مقررہ 60فیصد نمبروں کا معیار بھی درست نہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجز و جامعات میں داخلہ نشستوں کی تعداد میں حسب آبادی اضافہ نہیں کیا جارہا۔ صورتحال کا تیسرا لائق توجہ پہلو یہ ہے کہ میڈیکل و طب کی تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کے ساتھ مزید اِس شعبے میں سرمایہ کاری مدعو کرنے کی ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں صرف ملکی ہی نہیں بلکہ غیرملکی تعلیمی اداروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینی چاہئے تاکہ مقابلے کی فضا اور ماحول پیدا ہو اور طب کی تعلیم معیار کے لحاظ سے بہتر ہونے کے علاوہ قیمت کے لحاظ سے کم بھی ہو۔ پاکستان اگر اپنے نوجوانوں کو طب کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم کی صورت ہنرمند بناتا ہے تو اِس کا ایک فائدہ تو مقامی طور پر علاج معالجے کی صورتحال بہتر ہوگی اور دوسرا فائدہ ہنرمند و تربیت یافتہ افرادی قوت کے بیرون ملک برآمد کی جا سکے گی۔ ایک نکتہ¿ نظر یہ ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کی تعداد کم نہیں اور ہر سال مزید ڈاکٹر بنانے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ طبی سہولیات کی فراہمی کا ڈھانچہ اور انتظامی فیصلوں کے ذریعے افرادی وسائل کی درست تقسیم اور اُس سے حسب حال و ضرورت استفادہ ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے زیرانتظام انٹرنیٹ کے ذریعے (آن لائن) سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع ”پاکستان میڈیکل کمیشن کی فہم و فراست اور توقعات“ تھیں۔ نشست سے خطاب کرتے ہوئے میڈیکل کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر ارشد تقی نے انکشاف کیا کہ ”چند نجی میڈیکل کالجوں کی جانب سے دباو¿ ڈالا گیا کہ وہ اپنے ہاں خالی نشستوں پر داخلے بنا اہلیت فراہم کریں لیکن اِس طرح سے داخلہ صرف اُن طلبہ کو میسر آئے گا جو حسب طلب مالی ادائیگیاں کر سکیں۔“ قابل ذکرہے کہ میڈیکل کمیشن کے قیام کے بعد سے دوسرا ایسا سیمینار تھا‘ جس میں مختلف میڈیکل یونیورسٹیز کے وائس چانسلروں اور میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کے پرنسپلز کے علاوہ طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور ماہرین کو ملک بھر سے شرکت کا موقع دیا گیا۔ میڈیکل کمیشن کی جانب سے طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبہ کے لئے تعلیمی وظائف سے متعلق حکمت عملی کا ذکرکرتے ہوئے حکومت اور مخیر افراد سے اپیل کی گئی کہ وہ اِس مقصد کے لئے عطیات دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مستحق طلبہ کی مدد کی جا سکے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ فیصلہ ساز ہر سال مالی طور پر مستحق طلبہ کے لئے کروڑوں روپے کے تعلیمی وظائف کی فراہمی کو تو ضروری سمجھتے ہیں لیکن وہ یہی کروڑوں روپے سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں نشستوں کی تعداد بڑھانے پر خرچ کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے اور نہ ہی طب کی تعلیم کو بالترتیب پانچ اور چار سال کی بجائے سات اور چھ سال پر محیط نہیں کرتے تعلیم کے شعبے میں یکساں نصاب تعلیم کے ساتھ یکساں امتحانی نظام کا بھی اجراءہونا چاہئے۔ ایک ہی وقت میں مختلف قسم کے امتحانات اور اُن امتحانات کی تیاری کے لئے کاروباری مراکز (ٹیوشن و کوچنگ سنٹرز) کا بھی نوٹس لینا چاہئے المیہ ہے کہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹروں کا اضافہ تو کر دیا گیاہے لیکن عملی زندگی میں انسان دوست ڈاکٹر کتنے ملتے ہیں اور خوداحتسابی پر یقین کے ساتھ‘ اپنی کارکردگی پر نظر رکھنے والوں کا شمار زیادہ بلند نہیں‘ اِس بارے بھی کچھ نہ کچھ سوچ بچار ہونی چاہئے۔