میرا بستہ کہیں کھو گیاہے  

نئے تعلیمی سال کے پہلے روز جب نئی کتابیں ہمیں دستیاب ہوتیں تب ہماری یہ عادت تھی کہ  اْن کتابوں کے اوراق ہم سونگھتے اور پلٹتے جاتے اور اْن کی خوشبو سے محظوظ ہوتے۔ اْن اوراق سے ایک عجیب بھینی بھینی خوشبو آتی تھی بالکل ویسی ہی جیسی گاؤں میں پہلی بارش کی بناء پر مٹّی سے خوشبو آتی ہے۔ پھر چندر وز بعد وہ خوشبو ختم ہوجایا کرتی تھی البتہ اْن کتابوں میں کچھ ایسی تحریریں ہوتیں جن کی خوشبو سال بھر اور بعد میں بھی آیا کرتیں۔ کچھ تحریریں ایسی تھیں اْن کی خوشبو سے آج بھی ذہن معطّر ہے لازوال تحریریں تخلیق کرنے کیلئے جنون چاہے، اعلیٰ درجے کا جنون و دیوانگی اور کمٹمنٹ اور اگر وہ نہیں ہے تو بھینی بھینی خوشبو والی تحریریں تخلیق ہونے سے رہیں۔ پھر سکول کے پہلے روز درسی کتابوں کے اوراق کی خوشبو تو بچّے سونگھیں گے مگر اْن کتابوں کی تحریروں کی خوشبو سے اْن کے ذہن اس طرح معطّر نہیں ہوں گے جیسا کہ ہونا چاہئے اور یوں آج میرا بستہ کہیں کھوگیا ہے ٹاٹ کا بناہوا،کپڑے سے بنایاہوا، رنگ خاکی یا پھر سیاہ ہے، گلے میں لٹکانے کیلئے ایک پٹہ بھی ہے۔ گاؤں کی گاڑی سے شہر کی طرف آتے وقت وہ بستہ کہیں گْم ہوگیا ہے۔ اْس بستے کے ایک حصّے میں کتابیں رکھی ہوئی ہیں دوسرے میں بیاضیں۔ کتابوں میں آپ کو اردو کی کتاب ڈھونڈنے میں دقّت نہیں ہوگی کیوں کہ میری سب سے زیادہ استعمال شدہ کتاب وہی ہے۔ بستے میں میری اردو زباندانی کی بیاض کھولیں گے تو اْس میں کئی اشعار کی تشریح پائیں گے، وہ سب ہمارے انتہائی لائق استاد نے بڑی ہی جامع اور پیاری تشریح لکھوائی تھی۔ میرے بستے میں ایک چھوٹا سا بکس بھی ہے، اْس میں ایک قلم ہے جن کی نِب کٹی ہوئی ہے۔ اْس کٹی ہوئی نِب کے قلم سے ہم خوش خط اِملا لکھا کرتے تھے۔ اِملا کی بیاض میں دیکھ لیجئے کہ ہمیں روزانہ دس سطر اِملا کتنی نفاست سے لکھوایا جاتی تھی۔ میرے بستے میں ایک تختی بھی ہے، کچھ ٹوٹی ہوئی مگر بڑی پیاری تختی ہے۔ مجھے وہ اس لئے بھی عزیز ہے کہ وہ آج کے ٹیبلٹ پر بھاری ہے۔ ساری ریاضی، ساری سائنس کی مشق ہم اْس پر کرتے تھے۔ اس میں ایک دو پنسل بھی ہیں، ایک سکیل بھی ہے، جومیٹری بکس ہم ہر دو سال میں ایک بار ہی خریدتے تھے مگر علم ہندسہ میں نمبر ہمیشہ پورے ملتے تھے۔ میرے بستے میں آپ کو ایک اور ڈبہ ملے گا۔ میں اس ڈبّے میں مہنگے مہنگے چاکلیٹ یا سینڈویچ وغیرہ لے کر نہیں جاتا تھا۔ دراصل میں نے تو اِن چیزوں کے نام بھی نہیں سْنے تھے۔ اْس ڈبّے میں میری ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی دو روٹیاں لے جایا کرتا تھا۔ روکھی سوکھی روٹیاں، جن پر ماں اپنا پیار دْلار لگایا کرتیں، اسلئے مکھّن یا گھی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ہمارے بستے میں پانی کی بوتل نہیں ہے کیوں کہ پانی کی بوتل لے جانے کا اس وقت رواج نہیں تھا۔ ہمارے سکول کے قریب ہی ایک کنواں اورسرکاری نلکا تھا۔ اْس کا صاف شفاف اور ٹھنڈا پانی ہمارے سکول کے مٹکے میں بھراجاتا تھا۔ کنویں کا وہ پانی پینے کی بنا ء پر شاید ہم کبھی بیمار نہیں ہوئے۔میر ے بستے میں بچّوں کا ایک رسالہ بھی ہے۔ یہ وہ رسالہ ہے جس کا ہم پورے مہینے انتظار کرتے تھے۔ اس رسالے میں میری ایک کہانی بھی چھپی ہے۔ میرے بستے میں ہیری پوٹر جیسی کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ میری لائبریری سے حاصل کیا ہوا ایک کتابچہ ہے۔حضرت عمرؓ کاکردار۔ میرے بستے میں ایک چھوٹی سی بیاض بھی ہے۔چھوٹی بیاض سے مراد آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ کوئی آٹو گراف کی بْک ہے۔ وہ میرے چنندہ اور پسندیدہ اقوالِ زرّیں کی بیاض ہے۔ کئی کتابوں اور رسالوں سے میں نے یہ سارے اقوال جمع کئے تھے۔ میرے بستے میں ایک فوٹو بھی ہے۔ کسی فلم سٹار کی نہیں، گاؤں میں ایک چلتا پھرتا فوٹو گرافر آیا تھا۔ ہم چند دوستوں نے اپنے دو اساتذہ سے درخواست کی کہ وہ ہمارے ساتھ فوٹو کھنچوائیں اور انھوں نے رضامندی کا اظہار کیا تھا، وہ یادگار فوٹو بھی اسی بستے میں ہے۔میرے بستے میں ایک اور قیمتی چیز ہے، وہ ہے میرے استاد کا بنایا ہوا ایک ٹائم ٹیبل جس میں انھوں نے پڑھائی اور نمازوں والا ایک ٹائم ٹیبل مرتّب کیا تھا، کچھ اس طرح کی پڑھائی بھی مکمل ہوجائے اور کوئی نماز بھی نہ چھوٹے۔ ہم اْس زمانے میں سْنتے تھے کہ ہمارے اْس اْستاد کی ماہانہ تنخواہ صرف چندسوروپے تھی۔ کوئی پے کمیشن تھا نہ ہی انڈی پینڈیٹ مانیٹرنگ یونٹ تھا کہ طلبہ کے لئے ٹائم ٹیبل بنانے کی نگرانی کریں مگر وہ اساتذہ کچھ عجیب مِٹّی کے بنے تھے جو ہم طلبہ کی ہمہ جہت تربیت و تعلیم میں ہر دم کوشاں رہتے۔ میرے بستے میں ایک قیمتی چیز وہ قلم بھی ہے جوضلعی سطح کے تقریری مقابلے میں اوّل آنے پر میرے سکول کے ہیڈ ماسٹر نے اپنی جیب سے نکال کر دی تھی۔ میں ہر بار اْس قلم کو تکتا رہتا تھا کہ میرے اْستاد نے اپنی قلم مجھے انعام دیاہے۔ میرے لئے یہ بڑا اعزاز ہے۔ آج ہر سْو ڈیجیٹل بستے کی دھوم ہے کیوں کہ سمارٹ فون بھی اس بستے کا ایک حصّہ بن گیا ہے مگر کیا میرے بستے کے سارے اوصاف آج کے کسی بستے میں ہیں؟ میرا بستہ ٹاٹ کا بنا ہوا ہے، رنگ خاکی ہے، سادہ سا ہے مگر مجھے بڑا پیار ا ہے۔ گاؤں سے شہر آکر میں نے روپیہ پیسہ کمایا، خوب نام کمایا مگر میرا ایک ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ گاؤں سے شہر آتے وقت میرا بستہ کہیں کھوگیا۔ اگر کسی کو ملے تو براہِ کرم وہ مجھے لوٹا دے تاکہ میں اپنی نئی نسل کو بتا سکوں کہ میرا بستہ سارے ڈیجیٹل بستوں پر کیسے بھاری تھا۔