پشاور کہانی: رہائشی منصوبے 

ضلع پشاور کی حدود میں مکمل اجازت نامہ حاصل نہ کرنے والے ”رہائشی منصوبے‘‘پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ضلعی انتظامیہ کا فیصلہ 27 جنوری کو سامنے آیا تھا جس میں ایسی 181 ہاؤسنگ سوسائٹیز کی نشاندہی کی گئی جنہوں نے اجازت نامہ حاصل کرنے کا عمل (پراسیس) شروع تو کیا تھا لیکن کسی نہ کسی مرحلے میں اُسے مکمل نہیں کیا اور ایسے تمام رہائشی منصوبوں میں ترقیاتی کام اور جائیداد کی خریدوفروخت ممنوع قرار دیدی گئی۔ کسی بھی رہائشی و تجارتی منصوبے کو بنانے کے لئے ”پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے)‘‘سے اجازت نامہ (این اُو سی) حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ این اُو سی حاصل نہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کا بھی حکم دیا گیا۔ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مروجہ قواعد و ضوابط (خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ رولز 2005ء) کے تحت اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ پشاور کی چاروں تحصیلوں میں ایسے غیرقانونی  تعمیراتی منصوبے پائے گئے جن میں شاہ عالم تحصیل 123‘ سٹی تحصیل 25‘ صدر تحصیل 24 اُور متنی تحصیل میں 9 رہائشی غیرقانونی منصوبوں کی نشاندہی ہوئی۔صوبائی حکومت کی جانب سے تعمیراتی قواعد پر سختی سے عمل درآمد کرنے کا فیصلہ اپنی جگہ اہم ہے کہ قبل ازیں اِس قدر بڑے پیمانے اور عملی طور پر ایسی پابندیوں کا اطلاق دیکھنے میں نہیں آیا اور یہی وجہ ہے ہزاروں کی تعداد میں تعمیراتی کاموں سے منسلک افراد سراپا احتجاج ہیں اور پابندیاں اُٹھانے کے ساتھ قواعدوضوابط میں نرمی بھی چاہتے ہیں۔ تعمیراتی شعبہ روزگار اور ملازمتیں فراہم کرنے کا ذریعہ ہے جبکہ سرمایہ کاروں پر حکومتی پابندیوں کے منفی اثرات صرف یہی مرتب ہوئے ہیں کہ اُن کے خلاف درج مقدمات خارج کروانے کے لئے حکومت پر زور ڈالا جا رہا ہے۔ جب بھی کسی سرمایہ کار یا صنعت کار پر کوئی حکومتی ادارہ قواعد کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ مزدوروں کو آگے کر دیتا ہے اور اِس حربے سے حکومتی فیصلہ ساز بھی نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ آئین و قواعد کا ایک نرم گوشہ وہ انسانی پہلو ہے جو انسانوں کی کفالت اور اُن کے روزگار سے متعلق ہے لیکن کیا محض اِس وجہ سے قانون و قواعد شکنی کی اجازت دیدی جائے کہ اِس بے قاعدگی و لاقانونیت کا ایک انسانی پہلو بھی ہے۔حکومتی قواعد کے مطابق کوئی بھی رہائشی منصوبہ کم سے کم 160کینال رقبے پر مشتمل ہونا چاہئے اور اِس کالونی کی مرکزی شاہراہ کم سے کم 33 فٹ چوڑی ہونی چاہئے لیکن پشاور کے طول و عرض میں بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی اکثریت کا رقبہ مقررہ حد (160 کینال) سے کم ہے۔ قواعد کے مطابق کسی ہاؤسنگ سکیم کا کم سے کم 7 فیصد رقبہ سبزہ زار یا کھلے علاقے پر جبکہ 2 فیصد رقبے پر قبرستان اور 5فیصد رقبہ پر کمرشل ایریا ہونا چاہئے۔ اِن قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ وہ حکومت سے آئندہ اِس سلسلے میں تعاون کرنے کو تیار ہیں لیکن سردست کمی بیشی کو درگزر کیا جائے اور قواعد و ضوابط میں نرمی کی جائے۔ ایک مطالبہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ مکمل ہونے والے رہائشی منصوبوں کو مذکورہ لوکل گورنمنٹ قواعد و ضوابط سے استثنیٰ دیا جائے اور اِن قواعد و ضوابط کا اطلاق صرف اُن ہاؤسنگ سوسائٹیز پر ہونا چاہئے جو زیرتعمیر ہیں۔ صورتحال خاصی دلچسپ ہے کہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تو نشانے پر لیا ہے لیکن جب یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی تھیں اور جن حکومتی اداروں کی آنکھوں کے سامنے قواعد کی خلاف ورزیاں ہوئیں اُنہوں نے خاطرخواہ کاروائیاں نہیں کیں۔ اگر ’پی ڈی اے‘ اور ضلعی حکومت کے اہلکار اپنے فرائض منصبی کی بجاآوری سنجیدگی سے کر رہے ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ خودکار جھاڑیوں (مشرومز) کی طرح یہ رہائشی کالونیاں بن سکتیں اور نہ ہی یہ عمل راتوں رات کسی جادو کے زور سے مکمل ہوا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ قواعد و ضوابط بنانے اور اُن کے اطلاق یا خلاف ورزی کے مراحل میں نگرانوں کے لئے سزائیں مقرر نہیں کی جاتیں اور جب تک سزاء و جزاء اور شریک جرم کرداروں کے خلاف کاروائی نہیں ہوگی پشاور میں غیرقانونی رہائشی منصوبوں کا قیام اور رہائشی اور کاروباری کے درمیان تمیز ختم ہوتی چلی جائے گی۔