مہنگائی کیخلاف جہاد۔۔۔

بائیس دسمبر دوہزارتیرہ: لاہور میں مہنگائی کے خلاف ’عوامی احتجاج‘ کی میزبانی اور قیادت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وفاقی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے 2 مطالبات کئے۔ 1: غریبوں کو جینے کا حق دیا جائے اور 2: مہنگائی کے خلاف جہاد کا اعلان کیا جائے۔ اِنہی دو بنیادی مطالبات کو لیکر مہنگائی کے خلاف احتجاجی لہر (سونامی) بعدازاں سندھ (چھ جنوری دوہزارچودہ) اور راول پنڈی (چوبیس جنوری دوہزارچودہ) سے ٹکرایا۔سات مارچ دوہزاراکیس: قومی اسمبلی ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد عمران خان نے ”مہنگائی کے خلاف جہاد“ کا اعلان کیا۔ یعنی ایسی معاشی اصلاحات لائی جائیں گی جس سے بہتری کا فائدہ ’غریب عوام‘ کو پہنچے گا۔ لائق توجہ ہے کہ وزیراعظم بننے کے 30 ماہ 18 دن (2 سال 6 ماہ بعد) عمران خان کو اپنا دیرینہ مطالبہ (مہنگائی کیخلاف جہاد) کا خیال آیا جبکہ یہ ’اہم اعلان‘ بھی اُن کی بجائے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات کے وساطت سے قوم تک پہنچا۔مہنگائی کیا ہے؟ مہنگائی کیوں ہے اور مہنگائی کے متاثرین کون ہیں؟ اشیا اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کو مہنگائی کہتے ہیں‘ جس کا ایک محرک عام آدمی کی ’قوت خرید‘ میں کمی ہونا بھی ہے چونکہ پاکستان میں بنیادی استعمال کی کئی اشیاءجنم میں سرفہرست پیٹرولیم مصنوعات (تیل و گیس) ہیں جبکہ اِن کے علاوہ دالیں‘ خوردنی تیل‘ گھی‘ سبزی‘ مصالحہ جات پھل وغیرہ درآمد کئے جاتے ہیں اِس لئے اِن کی قیمتوں میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی کا اثر بھی مہنگائی پر پڑتا ہے اور جب حکومت قیمتوں میں اضافے کا بوجھ برداشت کر کے رعایت (سبسڈی) دیتی ہے تاکہ عام آدمی پر مہنگائی کے اثرات کم ہوں تو اِس کا نسبتاً زیادہ فائدہ غیرمستحق طبقات اُٹھاتے ہیں‘ جس کی مثالیں ’یوٹیلٹی سٹورز‘ پر قطاروں کی صورت دیکھی جا سکتی ہیں جہاں لاکھوں کروڑوں روپے کی قیمتی گاڑیوں میں بیٹھ کر آنے والے کم آمدنی والے طبقات کےلئے دی جانے والی رعائت (سبسڈی) سر عام لوٹتے ہیں اُور کسی فیصلہ ساز کو فکر نہیں کہ یوٹیلٹی سٹورز سے استفادہ کرنے والے مستحقین اُور غیرمستحقین کا تعین کرے جیسا کہ ’سی ایس ڈیز سٹورز‘ پر متعلقہ اور غیرمتعلقہ خریداروں کے لئے ہوتا ہے۔ اطلاعات ہیں حکومت نے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے تین ماہ قبل کام شروع کیا تھا تاہم اُس کا اعلان نہیں کیا گیا تاکہ عوام کے سامنے ثمرات کی صورت نتیجہ خود ظاہر ہو۔ تحریک انصاف حکومت شروع دن مہنگائی کے خاتمے کےلئے اعلانات کر رہی ہے۔ منطق و حکمت اور کارکردگی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف مہنگائی کے خلاف جہادی جذبہ رکھنے کا عزم ظاہر کیا جا رہا ہے ور دوسری طرح مہنگائی کے ہاتھوں زچ عوام اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ حیران و پریشان ہیں۔ شک و شبے سے بالاتر ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے کے بعدایک زبوں حال معیشت ملی جو قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ اِن قرضوں کی ادائیگی تو ایک طرف سود کی مد میں ادائیگی کا بھی حکومت پر مستقل دباو¿ تھا جو اب بھی بدستور قائم ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ہم جو بھی ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں‘ دوسرے الفاظ میں ملک کی کل آمدن کا نصف قرضو ں کے سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ ملکی معیشت تو پہلے ہی دگرگوں تھی اسے ایک بہت بڑا دھچکا کورونا وبا کی وجہ سے لگا جس نے دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ہیں اور پاکستان کی معیشت پر بھی کورونا وبا کے منفی اثرات مرتب ہوئے تاہم حکومت کی بہتر حکمت عملی سے طویل لاک ڈاو¿ن نہیں لگایاگیا‘ جس کے باعث معیشت زمیں بوس ہونے سے محفوظ رہی۔ حکومت کی طرف سے مہنگائی سمیت بہت سی خرابیوں کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ اندھادھند قرضے لئے گئے۔ ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر کنٹرول کیا گیا۔ مہنگائی بھی عارضی اقدامات کے ذریعے کنٹرول کی گئی۔ حکومت کی طرف سے آج کی مہنگائی سے ایسے جواز کو تسلیم کرلیا جائے تو بھی کوئی حکومت کلی طور پر بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت میں آنے سے قبل انہیں معاشی حالات کی خرابی کا اندازہ تو تھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد پتہ چلا کہ صورتحال کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ اس معاملے میں کس کو موردالزام ٹھہرایا جاسکتا ہے اور پھر حکومت کئی ماہ مَصر رہی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے‘ بالآخر اس فیصلے پر نظرثانی کرنی پڑی۔ یہ فیصلہ ابتدا ہی میں کرلیا جاتا تو شاید حکومت عوام کو کسی حد تک ریلیف دینے میں کامیاب ہوجاتی۔ مہنگائی کے محرکات‘ وجوہات اور اسباب جو بھی ہوں‘ عام آدمی کی توقعات اور اُمیدوں کا مرکز تحریک انصاف ہے‘ جس نے مہنگائی میں اضافے کے بعد اب منگائی کیخلاف جہاد‘ کا اعلان کیا ہے۔ اُمید ہے کہ جس تیزی سے مہنگائی میں اضافہ ہو اہے اُسی توجہ سے مہنگائی کی شرح میں کمی بھی لائی جائے گی۔