کورونا شدت: تعلیمی حرج۔۔۔

وفاقی اِدارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی اُو سی) نے ملک میں کورونا وبا کی شدت اور پھیلنے کے پیشِ نظر اسلام آباد‘ پشاور اور پنجاب کے سات شہروں (فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ لاہور‘ گجرات‘ راولپنڈی‘ سیالکوٹ اور ملتان) میں پندرہ سے اٹھائیس مارچ ’موسم بہار کی تعطیلات‘ کا اعلان کیا ہے‘ اِس متعلق فیصلے میں وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم سے مشاورت بھی کی گئی۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق ’پانچ کروڑ‘ طلبہ کی صحت و سلامتی بھی ترجیح ہے اور جن اضلاع میں تعلیمی ادارے بند نہیں کئے گئے وہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رہے گا تاہم صوبائی حکومتیں حالات پر نظر رکھیں گی اور باریک بینی سے جائزہ لیتی رہیں گی۔ جہاں محسوس ہوا کہ حالات بگڑ رہے ہیں وہاں تعلیمی ادارے یا شہر بند کر دیئے جائیں گے البتہ جن سکولوں میں سالانہ امتحانات ہورہے ہیں یا کیمبرج سکول سسٹم کے امتحانات جاری ہیں ان پر اِس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔ ’این سی او سی‘ اجلاس (دس مارچ) میں کئے گئے دیگر فیصلوں کے مطابق 1: ماسک پہننے کی سختی سے تعمیل کی جائے۔ 2: بیماری کے پھیلاو¿ یا ہاٹ سپاٹ کی بنیاد پر ایس ایل ڈی/ مائیکرو ایس ایل ڈی کا اطلاق جاری رہے گا۔ 3: وفاقی اداروں کی صوابدید پر پچاس فیصد ہوم پالیسی کا اطلاق ہوگا جبکہ آئی سی ٹی میں اس کا اطلاق فوری ہوگا۔4: تمام تجارتی سرگرمیاں رات دس بجے بند کردی جائے گی تاہم انتہائی اہم خدمات مثلاً ادویات فروشوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔ 5: ملک بھر میں تفریحی پارکس شام چھ بجے بند کر دیئے جائیں گے۔پاکستان میں کورونا وبا کے آغاز (فروری دوہزاربیس) سے مسلسل دباو¿ جاری ہے جس کی بنیادی وجہ ’بے احتیاطی‘ ہے۔ کورونا وبا سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کےلئے جو احتیاطی تدابیر (ایس اُو پیز) جاری کئے گئے ہیں اُن پر بہت کم عمل درآمد ہوتا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وبا کے پہلے دورانیے فروری سے اگست دوہزار بیس‘ دوسرے دورانیے نومبر دوہزار بیس سے جنوری دوہزار اکیس اور اب تیسرا دورانیے میں تعلیمی ادارے مجبوراً بند کرنا پڑ رہے ہیں کیونکہ گزشتہ دس روز (یکم مارچ سے) ملک میں کورونا وبا کے کیسز میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے اور مثبت کیسز کی مثبت شرح ساڑھے چار فیصد سے بڑھ چکی ہے جو ڈھائی سے تین فیصد کے درمیان رہتی تھی۔پاکستان میں کورونا وبا سے نسبتاً زیادہ متاثر تعلیمی نظام اور تعلیمی معمولات ہوئے ہیں جس کی بنیادی وجہ تعلیم کا روایتی بندوبست (طریقہ¿ کار) ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو کورونا وبا سے قبل درس و تدریس کے عمل میں اصلاحات متعارف کروائی گئیں جن میں زیادہ تیزی اور بہتری کورونا وبا کے بعد آئی لیکن پاکستان میں ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آ رہا جس سے تعلیم کا حرج کم سے کم کیا جا سکے۔ عالمی سطح پر سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ انجنیئرنگ اور ریاضی کو ایک مضمون میں ضم کر کے ’آن لائن تدریسی‘ نظام وضع کیا گیا ہے جو اگرچہ اپنی ابتدائی حالت میں ہے لیکن اِس کے ذریعے طلبہ کو اسباق نہیں بلکہ نظریات (بنیادی باتیں) ازبر کروائی جاتی ہیں۔ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے گھر گھر کلاس رومز کھولے جا سکتے ہیں اور اِس سلسلے میں کامیاب تجربات موجود ہیں۔تعلیم دینے کا عمل اصلاح (نظرثانی) چاہتا ہے جس میں صرف بول چال ہی اہمیت نہیں بلکہ طلبہ میں تنقیدی و تخلیقی سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اِس سلسلے میں امریکہ‘ چین اور دیگر ممالک کے تجربات اور شبانہ روز محنت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جنہوں نے درس و تدریس کے عمل کو ”مصنوعی ذہانت“ جیسے جدید ترین تعلیمی طریقہ کار کے ذریعے نئی جہت سے روشناس کرایا ہے۔ شعبہ¿ تعلیم میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہی واحد ضرورت نہیں بلکہ تعلیم کےلئے مختص مالی وسائل میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ کورونا وبا کا قیام کب تک رہے گا اور اندیشہ یہ بھی ہے کہ اِس کی کوئی نئی قسم اب تک دریافت ہوئے علاج یا بچاو¿ کی تدابیر کو ناکافی ثابت کر دے تو ایسی صورت میں تعلیم کے قومی خام آمدنی (جی ڈی پی) کا زیادہ حصہ تعلیم کےلئے مختص کرنا ضروری ہے۔ قابل افسوس ہے کہ درس گاہوں (باضابطہ تعلیم کے وسائل) سے استفادہ نہ کرنے والے بچوں کی بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے اور پاکستان نائجیریا کے بعد دوسرا ایسا بڑا ملک ہے جہاں سکولوں نہ جانے والے بچوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک ایسی صورتحال جہاں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد پہلے ہی غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے تو اگر سکول بھی کسی وجہ سے بند کر دیئے جائیں تو اِس کے منفی اثرات بارے اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ حکومتی فیصلہ ساز اعلانات اور آسان فیصلوں کے ساتھ اُن ذمہ داریوں کو نبھانے کے بارے میں بھی سوچیں جو درس و تدریس جاری رکھنے اور اِس کا دائرہ¿ کار بڑھانے سے متعلق ہے۔ تعلیمی حرج زیادہ بڑا خسارہ ہے۔ بنیادی بات اور ضرورت یہ ہے کہ کورونا وبا کے باعث اگرچہ سکول مجبوراً بند کرنا پڑے ہیں لیکن درس و تدریس کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے۔