سینٹ کا الوداعی اجلاس۔۔۔۔

پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینٹ کے نصف ارکان اپنی چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد سبکدوش ہورہے ہیں۔ ان میں سے بعض ارکان کا حالیہ سینٹ الیکشن میں دوبارہ انتخاب ہوا ہے وہ اگلے چھ سال تک ایوان بالا کے رکن رہیں گے۔ سبکدوش ہونے والوں کے اعزاز میں سینٹ کا الوداعی اجلاس گزشتہ روز منعقد ہوا۔دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے رخصت ہونے والوں کو فیرویل پارٹیاں دی جارہی ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا جارہا ہے۔ اس صورتحال پر ایک مشہور مصرعہ یاد آگیا۔ شاعر کہتے ہیں کہ ” عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل چمن۔ یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ“دلچسپ بات یہ ہے کہ ریٹائر ہونے والے اراکین کو الوداع کہنے کے لئے بلائے گئے ایوان بالا کے اجلاس میں بھی ایجنڈے پر کاروائی نہیں ہوسکی ۔ سینٹ انتخابات سے متعلق دیگرامور اٹھانے پر اجلاس کی کاروائی ملتوی ہوگئی۔دوسری جانب اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور ریٹائر ہونے والے سینیٹرز کے اعزاز میں دیئے گئے الوداعی عشائیے کا بائیکاٹ کردیاجس پر حکومتی اراکین کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینٹ اور سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ پر الوداعی عشائیہ دینا جمہوری روایت ہے۔جس میں ہمیشہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین شرکت کرتے رہے ہیں اپوزیشن کے پاس اس غیرسیاسی اور روایتی تقریب کے بائیکاٹ کا کوئی جواز نہیں تھاکیونکہ رخصت ہونے والوں کو الوداع کہنا ہمارے اقدار کا حصہ ہے۔عام پاکستانی سوچتا ہے کہ کھانے پینے کی تقریب کے بائیکاٹ کا مطلب یہی ہے کہ ایوان بالا کے ممبران میں شدید قسم کے اختلافات ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھنا اور بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ابھی عام پاکستانی یہ سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ دوسری جانب حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے ایک رہنما مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے لئے نامزد کرنے کی صدائے باز گشت سنائی دینے لگی ۔ اس فیصلے کو اپوزیشن اتحاد میں دراڑ ڈالنے کی چال گردانتے ہوئے پی ڈی ایم نے بھی انہیں اپنا امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کیا۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہ لیاجائے کہ حکومت اور اپوزیشن جس امیدوار پر متفق ہوئے ہیں وہ کوئی پارلیمانی امور کا ماہر ہے اور یہ فیصلہ ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں کیاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست دانوں کی طرف سے ایک دوسرے کو زچ کرنے اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کی چال ہے۔ متفقہ امیدوار کے لئے بھی یہ بڑا پیچیدہ امتحان ہے کہ وہ اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالے۔ پاکستان کی سیاست میں بعید نہیں کہ آج حکومت اور اپوزیشن جس امیدوار کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی رسہ کشی میں مصروف ہیں عین وقت پر دونوں ان کا نام ڈراپ کرکے کسی دوسرے کو اپنا امیدوار نامزد کریں۔پاکستانی سیاست میں ان دنوں کافی انہونیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اسلام آباد سے سینٹ کی جنرل نشست پر اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضاگیلانی کی طرف سے وزیراعظم سے ووٹ مانگنے پر حیرت زدہ ہونے والے اس وقت دوبارہ حیران ہوگئے جب موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی نے موجودہ ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا سے چیئرمین شپ کے لئے تعاون کی درخواست کی۔ ابھی اس ڈرامے کی قسط جاری تھی کہ حکومتی وفد ولی باغ پہنچ گیا اور ایک اور اپوزیشن جماعت اے این پی سے حکومتی امیدواروں کی حمایت کی درخواست کی ۔جس کے جواب میں اپوزیشن نے حکمران اتحاد میں شامل ایم کیو ایم کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کوششیں شروع کردیں۔شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی پینے کا جو ماحول آج پاکستان کی سیاست میں بن گیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ ماحول آنے والے دنوں میں بھی برقرار رہے۔ جس کا امکان اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہے تاہم امید باندھنے میں حرج ہی کیا ہے۔