شعبہ¿ زراعت سے وابستہ جغرافیائی محل و وقوع کی روشنی میں جب ”وادی¿ پشاور‘ ‘کا ذکر کیا جاتا ہے تو اِس سے مراد 3 اضلاع (پشاور‘ چارسدہ اور مردان) ہوتے ہیں اور یہ اضلاع دیگر زرعی اجناس کے علاوہ گنے کی فصل کے لئے مشہور ہیں یہی وجہ ہے کہ مذکورہ تینوں اضلاع میں شوگر ملیں قائم ہیں۔ مجموعی طور پر ’وادی¿ پشاور‘ میں 4 شوگرملیں جبکہ خیبرپختونخوا میں 8 شوگر ملیں ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ دیگر صوبوں کی شوگر ملیں اپنی پیداواری صلاحیت کے مطابق چینی پیدا کر رہی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کی شوگر ملیں گنے کی کم دستیابی کی وجہ سے بحران سے گزر رہی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے رواں سیزن میں چینی کی پیداوار کا ہدف 5.2 ملین ٹن رکھا گیا تھا جبکہ پیداوار 5.5 ملین ٹن حاصل ہونے کی اُمید ہے۔ پاکستان کی مجموعی بات کی جائے تو 26 فروری2021ءتک چاروں صوبوں میں 5.2 ملین ٹن چینی پیداوار حاصل کر لی گئی اور چونکہ ابھی گنے کی کٹائی کا عمل جاری ہے اِس لئے اُمید ہے کہ مزید چینی بھی پیدا ہوگی۔ اِس سلسلے میں پنجاب نے 3.45 ملین ٹن‘ سندھ نے 1.45 ملین ٹن اور خیبرپختونخوا نے 3 لاکھ 30 ہزار ٹن (سب سے کم) چینی پیدا کی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ گنے کے معیار کے لحاظ سے سب سے بہترین خطہ (وادی¿ پشاور) اور خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی شوگر ملیں کم پیداوار دے رہی ہیں؟توجہ طلب ہے کہ ’وادی¿ پشاور‘ کے کاشتکار گنا شوگر ملوں کو فروخت کرنے کی بجائے اِس سے گڑ بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں اور پھر یہ گڑ مختلف راستوں سے افغانستان و مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو سمگل کر دیا جاتا ہے۔ اِس طرح بنا ٹیکس دیئے کاشتکار گڑ کے ذریعے نہ صرف مقامی منڈی بلکہ عالمی منڈی سے بھی استفادہ کر رہے ہیں ‘ پشاور سے براستہ موٹر وے نوشہرہ چارسدہ اور مردان کے علاقوں سے گزرتے ہوئے سڑک کے دونوں جانب گڑ بنانے والی گہانیاں دھواں اگلتی دکھائی دیتی ہیں جس سے پورے علاقے میں ایک خاص مہک پھیلی رہتی ہے اور چھوٹے بڑے گڑ کی اِن گہانیوں پرکام کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال کہ جس میں شوگر ملیں گنے کے کاشتکاروں کوادائیگیوں میں تاخیر کے علاوہ گنے کی خریداری میں انتظار کرواتی تھیں تو کاشتکاروں نے ”میٹھا وار“ کردیا ہے اور آج خیبرپختونخوا کے شوگر ملز مالکان کی زبانوں پر گلے شکوے دکھائی دیتے ہیں جو حکومت سے اِس صورتحال کا نوٹس لینے‘ گڑ کی تیاری پر پابندی عائد کرنے‘ گڑ کی افغانستان سمگلنگ اور گڑ پر ٹیکس عائد کرنے جیسے اقدامات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کاشت ہونے والی فصلوں کے اعدادوشمار مرتب کرنے کے لئے صوبائی شماریاتی محکمہ موجود ہے جس کا کہنا ہے کہ رواں سیزن 3.5 ملین ٹن فصل ہوئی جو معمول ہے مطابق ہے اور وادی¿ پشاور کے اضلاع (پشاور‘ چارسدہ‘ مردان) میں صوبے کی کل پیداوار کا 60 فیصد گنا پیدا ہوا ہے لیکن اِس میں سے صرف 5 فیصد شوگر ملوں کو فروخت کیا گیا ہے۔ اِن اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح ’وادی¿ پشاور‘ کی شوگر ملیں بحرانی دور سے گزر رہی ہیں اور گنے کے کاشتکاروں نے اُن سے منہ موڑ لیا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب شوگر ملز کے بند دروازوں کے سامنے ٹریکٹر ٹرالیوں کی قطاریں لگ جاتی تھیں اور کاشتکار کھلے آسمان (دھوپ بارش) تلے اپنی باری کے انتظار میں قسمت کو کوستے تھے۔ وادی¿ پشاور (پشاور‘ چارسدہ اور مردان) میں پیدا ہونے والا گنا مقامی شوگر ملوں کی بجائے دور دراز کے جنوبی اضلاع کی شوگر ملوں کو فروخت ہونے کا انکشاف اور رجحان بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی شوگر ملیں (چشمہ‘ المعیز‘ ٹنڈلیانوالہ) وادی¿ پشاور سے گنا خرید رہی ہیں کیونکہ وہاں مقامی طور پر گنے کی پیداوار کم ہوتی ہے اور تین شوگر ملوں کے لئے وافر مقدار میں گنا دستیاب نہیںہوتا۔ ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان کی مذکورہ تینوں شوگر ملیں مقامی ذریعے سے گنا خریدنے کے بعد اپنی باقی ماندہ ضرورت کے لئے پنجاب اور سندھ سے گنا خریدتی تھیں لیکن اُن کی نظر انتخاب وادی¿ پشاور پر آ ٹھہری ہے۔ البتہ ایک خاص بات لائق توجہ ہے کہ گڑ کی کئی ایسی اقسام بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو مصنوعی مضر صحت طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے لیکن ہر صارف کو اچھے اور کیمیائی مادوں سے ملاوٹ شدہ گڑ کی پہچان نہیں ہوتی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے گڑ کی افغانستان غیرقانونی نقل و حمل کے حوالے سے دعوے سوفیصد درست نہیں‘ جن کا بنیادی مقصد گڑ کی مقامی پیداوار کو روکنا اور اِس گھریلو صنعت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حکومت گڑ بنانے والی صنعتوں کو جدید ٹیکنالوجی اُور تربیت کے ذریعے ایسے معیار کا گڑ بنانے کی طرف راغب کرے جو چینی کا بہترین نعم البدل اور برآمدی معیار کے مطابق ہو۔ پاکستان اور بالخصوص ’وادی¿ پشاور‘ میں تیار ہونے والا گڑ اپنی مٹھاس اور لذت کے لحاظ سے خاص شہرت کا حامل ہے اور وقت ہے کہ ’وادی¿ پشاور‘ کی اِس خاص پیداوار اور عالمی شہرت کو ’برانڈ و مارکیٹ‘ کیا جائے۔