اختلاف آسان اور اتفاق ہمیشہ مشکل ہوتا ہے بالخصوص جہاں فریقین کے مالی مفادات وابستہ ہوں۔ نجی تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیم ’نیشنل ایجوکیشن کونسل‘ نے کورونا وبا ء کی موجودگی اور خطرے جیسے جواز کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے تعطیلات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کونسل نے اپنا مؤقف (11 مارچ کے روز) پشاور پریس کلب میں پیش کیا جہاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے نجی تعلیمی اداروں کی مالی مشکلات اور درس و تدریس بار بار معطل ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال رکھی گئی۔ کونسل کی جانب سے اِس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا گیا کہ تعلیم سے متعلق فیصلہ سازی کرتے ہوئے نجی اداروں سے مشاورت نہیں کی جاتی اور نہ ہی اُن کے مؤقف کو خاطرخواہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ ایک ایسے ماحول میں جہاں معمولات زندگی جاری ہیں۔ کھیل و ثقافتی سرگرمیاں‘ بازار اور تجارتی مراکز کھلے ہوں‘ پبلک ٹرانسپورٹ مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہو۔ مالیاتی ادارے (بینکس) حسب معمول خدمات فراہم کر رہے ہوں لیکن حکومت کی توجہ تعلیمی اداروں کی بندش پر آ کر رک جاتی ہے جبکہ تعلیمی ادارے کورونا وبا ء سے متعلق حفاظتی انتظامات (ایس اُو پیز) پر نسبتاً زیادہ عمل درآمد کرتے ہیں اور اِس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ احتیاط کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔کورونا وبا ء سے متعلق پاکستان کی صورتحال کو تشویشناک بیان کرتے ہوئے (دس مارچ کے روز) ’نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر‘ نے جن اقدامات کا اعلان کیا اُن میں تعلیمی اداروں کی بندش بھی شامل تھی تاہم یہ حکمنامہ صرف اُن 9 شہروں (بشمول پشاور) سے متعلق تھا جہاں کورونا وبا ء نسبتاً زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اِس سلسلے میں ایک موازنے سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 29 جنوری 2021ء کے روز پاکستان میں 2ہزار186کورونا مریضوں کا اضافہ ہوا جس کے بعد یہ تعداد کم ہوتی رہی لیکن 11 مارچ 2021ء کے روز ایک دن میں دو ہزار نئے کورونا مریض سامنے آئے اور اِسی وجہ سے سخت فیصلے لئے گئے۔ 10مارچ کے روز 42 ہزار سے زائد کورونا ٹیسٹ کئے گئے جن میں 5.3فیصد کی شرح سے مثبت کیسز رہے اور یوں پاکستان میں (گیارہ مارچ تک) مصدقہ و معلوم کورونا مریضوں کی کل تعداد 17 ہزار 627 رہی۔ کیا یہ باعث تشویش امر نہیں کہ اگر ہر دن کورونا مریضوں کی تعداد میں دو ہزار کا اضافہ ہونے لگے اور ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے گنجائش بھی نہ ہو تو کیا حکومت لوگوں کو سڑکوں پر سسکتے تڑپتے اور دم توڑتے دیکھے؟کورونا وباء کے ممکنہ پھیلاؤ‘ اِس سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کے لئے ہدایات (SOPs) پر عمل درآمد نہ کرنے کے جرم میں عوام و خواص یکساں شریک ہیں۔ کورونا کے باعث تعلیمی تعطل ایک حقیقت اور ایک خلا ء کی صورت اپنی جگہ موجود ہے جو صرف تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال ہونے سے بھی پُر نہیں ہوگا جب تک کہ حکومت اور نجی شعبہ متبادل ذرائع سے درس و تدریس کے عمل پر توجہ نہیں دیتا اور ایسی کتب و صوتی بصری مواد تیار نہیں کیا جاتا جس سے تعلیم کا سلسلہ ہر حال میں جاری و ساری رہے۔ کورونا کے خصوصی حالات خصوصی اقدامات کے متقاضی ہیں اور ایسی کئی عملی مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں‘ جن کے ذریعے تعلیم کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ سال 2011ء‘ بائجو راویندرن (Byju Raveendran) نے ’بائجوس (Byjus)‘ کے نام سے ایک ’ایجوکیشنل ٹیکنالوجی کمپنی‘ بنائی جس کی کامیابی کا انداز اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2020ء کے اختتام پر اِس کمپنی کے اثاثہ جات اور آمدن کی 12 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی تھی۔ فی طالب علم (فی صارف) 3 ہزار بھارتی روپے (پاکستانی قریب چھ ہزار روپے) ماہانہ فیس ہونے کی وجہ سے ’بائجوس‘ بھارتیوں کی اکثریت کی قوت خرید سے زیادہ ہے پھر بھی اِس کے رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 7 کروڑ ہے آن لائن تعلیمی ایپلی کیشنز صارفین تک پہنچانے کے لئے ٹیلی ویژن نشریات کا سہارا لیا جاتا ہے اور نسبتاً کم قیمت بھی ہیں لیکن ’بائجوس‘ نے تدریسی مواد کے معیار اور خدمات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِن اداروں کی نمائندہ تنظیم صوبائی اور قومی سطح پر مشاورتی نشست کا انعقاد کر کے تعلیم کے اُن متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کرنے پر غورکرے جو اپنی ذات میں بے انتہا توانائی اور امکانات رکھتے ہیں۔ سردست نجی تعلیمی ادارے طلبہ سے رابطے کے لئے واٹس ایپ اور فیس بک گروپس کا استعمال کر رہے ہیں جو اپنی فطرت میں درس و تدریس کے لئے تخلیق کردہ پلیٹ فارمز نہیں ہیں۔ قومی سطح پر تدریسی سافٹ وئر سازی کے مقابلوں کا انعقاد کروانے کی ضرورت ہے تاکہ آن لائن ایجوکیشن کے شعبے میں پاکستان کا نام بھی دنیا کے نقشے پر اُبھر سکے۔