پشاور کہانی: آگے دوڑ‘ پیچھے چھوڑ۔۔۔

صوبائی دارالحکومت پشاور کی آبادی چاروں اطراف پھیل رہی ہے بالخصوص قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے بعد متصل ضلع خیبر جو کہ رنگ روڈ اور حیات آباد سے متصل ہے اور جس کے راستے افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداری پر بھاری گاڑیوں کی آمدورفت رہتی ہے سے متعلق ایک عرصے سے ترقیاتی حکمت عملیاں وضع کی جا رہی ہیں لیکن عملی طور پر پیشرفت نہیں ہو رہی!افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیاں پشاور کے رنگ روڈ اور حیات سے ہو کر گزرتی ہیں‘ جن کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک کا عمومی بہاو¿ متاثر رہتا ہے بلکہ سازوسامان سے لدی گاڑیوں کی وجہ سے سڑکیں اکھڑ جاتی ہیں جن کی بار بار مرمت کرنی پڑتی ہے۔ پشاور کی نسبتاً جدید رہائشی بستی حیات آباد میں رہنے والوں سے اگر اُن کے تین بڑے مسائل پوچھے جائیں تو اِن میں سرفہرست افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دوسرا صنعتی زون کی ٹریفک ہے جبکہ تیسرا مسئلہ پینے کا پانی ہے‘ جس کی شدت و قلت موسم گرما میں بڑھ جاتی ہے۔ پشاور جو کبھی اپنے ہاں قدرتی چشموں کے لئے مشہور تھا‘ اب وہ چشمے خشک ہو چکے ہیں بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر کسی دوسری نشست میں روشنی ڈالی جائے گی کہ کس طرح پشاور کے چشمے خشک کئے گئے اور اردگرد کی اراضی قبضہ کی گئی یہی طریقہ¿ واردات پشاور کے قبرستانوں میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔حیات آباد کے رہنے والے چاہتے ہیں کہ افغانستان کی تجارتی راہداری اور دیگر بھاری گاڑیوں کی آمدورفت کےلئے الگ سے شاہراہ بنائی جائے۔ یہ ایک دیرینہ مطالبہ ہے جس پر صوبائی حکومت نے دسمبر 2019ءمیں 3 کلومیٹر سے زائد شاہراہ براستہ اچینی حکمت عملی (پی سی ون) تیار کیا تھا۔ اِس شاہراہ کے باقی ماندہ حصے پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 1.53 ارب روپے لگایا تھا جس کا بنیادی مقصد فرنٹیئر کور کی شاہراہ کو رنگ روڈ کے جنوبی حصے سے ملانا تھا اور اِس شاہراہ کی تکمیل سے حیات آباد کے رہائشی علاقوں سے گزرنے والی افغان تجارتی راہداری کی بھاری گاڑیوںکو دوسری شاہراہ پر منتقل کر دینا تھا لیکن کئی برس پہلے منظور ہونے والے منصوبے اور پانچ ماہ پہلے تک اُس سے متعلق ہونے والے اجلاسوں کے باوجود مذکورہ متبادل شاہراہ کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہو سکا ہے اور اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ضلع پشاور اور ضلع خیبر کی انتظامیہ کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ غیرمربوط حکومتی ادارے ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے باعث نہ صرف افغان تجارتی راہداری پر کام شروع نہیں ہو رہا بلکہ اِسی کے سبب رنگ روڈ کا شمالی حصہ بھی مکمل نہیں ہو رہا۔ اگر صوبائی حکومت ’بس رپیڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی)‘ سے قبل ’رنگ روڈ‘ مکمل کرتی تو پشاور کی 80 فیصد سے زائد ٹریفک کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا اور 35 کلومیٹر طویل رنگ روڈ (خیبرپختونخوا ہائی وے نمبر 13) کی ضروری تعمیرومرمت اور بحالی کا عمل جو ایک عرصے سے توجہ کا منتظر ہے مکمل ہو سکتا تھا اور یہ زیادہ مفید ثابت ہوتا۔افغانستان تجارتی راہداری کو حیات آباد سے بائی پاس کرنے کےلئے تعمیراتی کمپنیوں سے لاگت کے تخمینہ جات طلب کئے اور 5 ماہ قبل ورک آرڈر بھی جاری کیا گیا لیکن تاحال تعمیراتی کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کو مالی وسائل فراہم کر دیئے گئے ہیں‘ جو مذکورہ متبادل شاہراہ کی تعمیر کا نگران ادارہ ہے۔ یہاں سے ’پی ڈی اے‘ کی دلچسپ کہانی شروع ہوتی ہے جس نے صوبائی حکومت کی جانب سے ذمہ داری ملنے کے بعد پشاور کے ضلعی منتظم (ڈپٹی کمشنر) کو خط لکھاکہ وہ سڑک کی تعمیر کےلئے اراضی کا حصول ممکن بنائے۔ اِس سلسلے میں آئینی طریقہ یہ ہے کہ ’لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894ئ‘ کے تحت سیکشن 6 اور سیکشن 7 لگا کر مفاد عامہ کے کسی منصوبے کےلئے اراضی حکومت خریدتی ہے اور اُس اراضی کے مالکان کو حکومت کے مقرر کردہ نرخوں کے مطابق زمین کی قیمت ادا کر دی جاتی ہے چونکہ یہ قیمت مارکیٹ کے نرخ سے انتہائی کم ہوتی ہے اِس لئے بااثر افراد اپنا جادو دکھاتے ہیں‘ جو یہاں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ تصور کریں کہ حکومت نے ایک سڑک کی تعمیر کےلئے لاگت کا تخمینہ لگا کر رقم مختص بھی کر دی لیکن جس اراضی پر وہ سڑک تعمیر ہونی ہے وہ تاحال خریدی نہیں جا سکی۔سینیٹ انتخابات (تین مارچ) اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین انتخابات (بارہ مارچ) سے فراغت کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور گورنر شاہ فرمان خان کو اُن زیرالتوا کام کاج (باقی ماندہ امور) کی طرف توجہ دینی چاہئے جن کی تکمیل میں رکاوٹ وہی بنے ہوئے ہیں جنہیں رکاوٹیں دور کرنے کی تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ پشاور کے مسائل میں ادھورے ترقیاتی منصوبے ایک ایسا عنوان ہے‘ جس کی مثالیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ ”آگے دوڑ اور پیچھے چھوڑ“ کے محاورے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر حکمراں تحریک انصاف اپنی باقی ماندہ آئینی مدت میں نئے ترقیاتی منصوبوں کی بجائے زیرالتوا منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دے تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔