بالآخر ایوان بالا میں خالی ہونے والی 48 نشستوں پر انتخابات ، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے چناﺅ کا مرحلہ بخیر و خوبی مکمل ہوگیا۔ حکمران اتحاد کے نامزد امیدوار صادق سنجرانی ایک بار پھر سینٹ کے چیئرمین اور خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے مرزا محمد آفریدی ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوگئے۔ اپوزیشن کو ایوان بالا میں حکومتی اتحاد پر چار ووٹوں کی سبقت حاصل تھی بظاہر یہی نظر آرہا تھا کہ اپوزیشن کے امیدواریوسف رضا گیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری آسانی سے جیت جائیں گے لیکن انتخابی نتائج حکومت اور اپوزیشن دونوں کےلئے حیران کن تھے۔ حکومتی امیدوار نے سینٹ کےلئے اپنے تمام 48ووٹ حاصل کرلئے جبکہ اپوزیشن کے 7 ووٹ مسترد ہوئے کیونکہ ان میں سے چھ نے مخصوص خانے کی جگہ گیلانی کے نام پر مہر لگائی تھی حالانکہ پریزائیڈنگ آفیسر نے پولنگ سے پہلے تمام ممبران کو ووٹ پول کرنے کے طریقے بتادیئے تھے۔ایک بیلٹ پیپر پر دونوں امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا گیا چیئرمین کے ووٹ سے بھی زیادہ دلچسپ ڈپٹی چیئرمین کا ووٹ رہا۔ جس میں ایک نسبتاً غیر معروف حکومتی امیدوار نے ریکارڈ 54ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ گویا حکومتی ارکان کے علاوہ اپوزیشن کے چھ ارکان نے بھی مرزا آفریدی کو ووٹ دیا۔ اس بار کوئی ایک ووٹ بھی مسترد نہیں ہوا۔ جماعت اسلامی نے سینٹ الیکشن کی طرح چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چناﺅ میں بھی حصہ نہیں لیا اور اپوزیشن کے ایک سینیٹر اسحاق ڈار غیرحاضر تھے۔ حکومت نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں اپنی کامیابی کو جمہوریت کی فتح سے تعبیر کیا ہے ‘اپوزیشن نے انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کا بھی اعلان کیا عام پاکستانی اس صورتحال میں پریشان اور مخمصے کا شکار ہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا جمہوریت کی جیت اور ہار سے کیا تعلق بنتا ہے۔ گویا حکمرانوں کی نظر میں جمہوریت ان کی اپنی کامیابی کا نام ہے اور اپوزیشن کی نظر میں ان کی ناکامی جمہوریت کی ناکامی ہے۔ یہاں اپوزیشن کے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کے سینیٹروں نے غلطی سے یا دانستہ طور پر اپنے ووٹ ضائع کئے اور دوسرے مرحلے میں اپوزیشن کے چھ ارکان نے مخالف امیدوار کو ووٹ دیئے۔ 2018ءکے سینٹ انتخابات میں تحریک انصاف نے پیسے لے کر ووٹ فروخت کرنے کے الزام میں اپنے 20 ارکان صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ یہ ایک قابل تقلید ، جرات مندانہ اور جمہوری فیصلہ تھا اپوزیشن کو بھی اپنی صفوں سے پارٹی پالیسیوں سے انحراف کرنے والوں کا نکال دینا چاہئے تاکہ جمہوری اقدار کو فروغ ملے اور آئندہ ووٹ فروخت کرنے کی قبیح رسم کا خاتمہ ہوسکے۔ وزیراعظم عمران خان نے سینٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت روکنے کےلئے اپوزیشن کو اوپن بیلٹ پر راضی کرنے کی بہت کوشش کی۔ ناکام ہوکر انہوںنے صدارتی آرڈیننس جاری کیا۔ اگر سینٹ انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کرائے جاتے تو صرف اسلام آباد کی جنرل نشست پر اپوزیشن کے ہارنے کا امکان تھا۔ مگر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب اپوزیشن آسانی سے جیت سکتی تھی۔ جب انہوں نے خفیہ بیلٹ کو جمہوری طریقہ قرار دے کر اوپن بیلٹ کی تجویز مسترد کردی تھی تو خفیہ بیلٹ کے نتائج کو بھی صدق دل سے تسلیم کرنا چاہئے۔ عام پاکستانی اس امر پر حیران اور پریشان ہیں کہ جن لوگوں کو انہوں نے ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی کرنے اور عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کےلئے ووٹ دیکر قومی ایوانوں میں بھیجا تھا انہیں سینٹ کے انتخاب میں قانون کے مطابق ووٹ دینا بھی نہیں آتا ۔ جن لوگوں کے ووٹ مسترد ہوئے ہیں انہوں نے اپنا ووٹ ہی نہیں قوم کا مینڈیٹ بھی ضائع کیا ہے ۔ قانون سازی کے ذریعے عوامی مینڈیٹ ضائع کرنے والوں پر مستقل پابندی لگانی چاہئے تاکہ ووٹ کی عزت برقرار رہے۔