سکول بیگ۔۔

زیربحث موضوع تعلیم کا معیار یا تعلیم کے اخراجات نہیں بلکہ ایک ایسی قانون سازی پر فخر کیا جا رہا ہے‘ جن کے ذریعے ”نصابی کتب کا وزن (بوجھ)‘ ‘مقرر کر دیا گیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ دیگر قوانین و قواعد کی طرح اِس نئے قانون پر عمل درآمد کون کروائے گا؟ خیبرپختونخوا حکومت نے اکتوبر 2020ءمیں ایک مسودہ قانون صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جس کا بنیادی نکتہ سکول بیگ (نصابی کتب) کا زیادہ سے زیادہ وزن تھا۔ ”خیبرپختونخوا سکول بیگز لیمیٹیشن آف ویٹ ایکٹ 2020ئ“ نامی مذکورہ مسودہ قانون ایک عرصے سے زیرغور تھا تاہم دو سال میں منظور ہوئے اِس مسودہ قانون کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ تصور کریں کہ ”دسمبر 2020ئ‘ ‘میں منظور کئے گئے قانون کا اطلاق دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ نجی تعلیمی ادارے سکول بیگز کا وزن کم کرنے سے متعلق سنجیدہ نہیں۔ خیبرپختونخوا کو اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اِس کے ہاں سب سے پہلے سکول بیگ وزن بارے قانون منظور کیا گیااور مذکورہ قانون کے تحت مختلف تعلیمی درجات کے لئے بستے کا وزن طے کر دیا گیاہے۔ ذہن نشین رہے کہ عالمی سطح پر سکول بیگز سے متعلق اصول یہ ہے کہ سکول بیگ کا وزن بچے کے مجموعی وزن کا 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے جبکہ سکول بیگ کی چوڑائی بچے کی چھاتی سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ اِس لحاظ سے ہر بچے کے لئے سکول بیگ کے وزن کا معیار مختلف ہوگا جو کہ عملاً ممکن نہیں اور صوبائی حکومت نے اِس مسئلے کا حل زیادہ سے زیادہ وزن کے اصول کی روشنی میں طے کیا جو اپنی جگہ اہم پیشرفت ہے۔صوبائی اسمبلی کے اراکین اگر قانون سازی میں خاطرخواہ دلچسپی لیتے اور اِس بات کی تحقیق کی جاتی کہ آخر سکول بیگ کا وزن بچوں کے لئے ناقابل برداشت حد تک کیسے پہنچا اور اِس خرابی کے لئے ذمہ دار کون ہیں؟ بنیادی بات یہ ہے کہ نجی تعلیمی ادارے زیادہ سے زیادہ منافع کے لئے کورس میں من پسند کتب شامل کرتے ہیں۔ نصاب کی کتب اور سکول یونیفارم کی مد میں کمائی کو جائز سمجھا جاتا ہے ‘ایک ایسے ماحول میں جہاں نگرانی اور قواعدوضوابط پر عمل درآمد میں مسلسل ناکامیوں کی مثالیں بکھری پڑی ہوں وہاں سکول بیگ کے زیادہ سے زیادہ وزن کی حد مقرر کرنے کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ توجہ طلب ہے کہ مغربی ممالک میں ابتدائی درجات (پرائمری) تک بچوں کو سکول بیگ دیئے ہی نہیں جاتے۔ بیگ فری (Bag Free School) سکولوں کا تصور پاکستان کے بڑے شہروں میں دکھائی دیتا ہے‘ جو اپنی جگہ منفرد اور لائق توجہ ہے۔صوبائی حکومت کے فیصلہ سازوں کو صرف سکول بیگ کا وزن ہی نہیں بلکہ اِس وزن کا باعث بننے والی نصابی کتب کا بھی نوٹس لینا چاہئے کہ نجی سکول غیرملکی اشاعتی اداروں کی کتب کا انتخاب کرتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر کتاب اور اُس کے ساتھ ورک بک کو لازم کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی کی کتاب کے ساتھ اُسی ضخامت کی ورک بک بھی لینا لازمی ہوتا ہے۔ ماضی میں ورک بک کا کام کاپیوں پر کیا جاتا تھا اور اِس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ایک سال کی کتابیں ضائع نہیں ہوتی تھیں بلکہ دوست احباب کو دیدی جاتی تھیں لیکن نصابی کتب اور ورک بک کے صفحات کے اُوپر ہی کلاس ورک کروایا جاتا ہے جس کے باعث کتابیں صرف ایک مرتبہ استعمال ہو سکتی ہیں۔ فیصلہ سازوں کو اِس بارے میں بھی غور کرنا چاہئے کہ کس طرح کسی مضمون کی کتاب اور اُس کے ہمراہ اُس کی ورک بک (workbook) کی آڑ میں نجی تعلیمی ادارے صارفین (والدین) کا استحصال کر رہے ہیں۔سکول بیگ وزن سے متعلق قانون کے مطابق اگر کسی بچے کا سکول بیگ کا وزن زیادہ ہوا تو ایسی صورت میں سکول کے پرنسپل کے خلاف کاروائی کی جائے گی جو زیادہ سے زیادہ 2 لاکھ روپے جرمانہ تک سزا ہو سکتی ہے لیکن ایسی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں کہ جس میں کسی سکول کو جرمانہ کیا گیا ہو اور نہ ہی سکولوں کے بیگ کا وزن کم ہوا ہے جو قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ قانون سازوں کو اپنے طرزعمل پر غور کرنا چاہئے کہ صرف قوانین میں اضافہ ہی کافی نہیں بلکہ اِنہیں گردوپیش میں قوانین پر عملدرآمد کی صورتحال پر بھی نظر رکھنا ہے۔