موبائل فون اور والدین کی ذمہ داری۔۔۔

پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز سوشل میڈیا فورم ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو اس وقت تک ٹک ٹاک بند رکھنے کا حکم دیا جب تک اس پر سے قابل اعتراض اور غیر اخلاقی مواد ختم کرنے کے لئے ایک واضح پالیسی اور عملی اقدام نہیں اٹھایا جاتا ‘مقامی شہریوں نے بے شمار شکایات کے بعد عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تاکہ نئی نسل کو نہ صرف مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جا سکے بلکہ سوشل میڈیا پر ڈالے جانے والے مواد کا معیار بھی بہتر بنایا جا سکے ایک عرصے سے شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ نہ صرف ٹاک ٹاک بلکہ فیس بک ‘یو ٹیوب ‘انسٹاگرام اور ٹوئٹر بھی نوجوان نسل غیر ضروری اور غیر اخلاقی مواد دیکھنے‘پڑھنے اور اپ لوڈ کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی پڑھائی اور کام متاثر ہو رہا ہے بلکہ معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا ہو رہا ہے ‘دیکھا جائے تو ان فورمز پر اپ لوڈ ہونے والا مواد واقعی بڑی حد تک غیر معیاری اور غیر اخلاقی ہے ‘گزشتہ دنوں واٹس ایپ پر ایک مقامی بچے کی ٹک ٹاک ویڈیو کسی نے بھجوائی جس میں14-13 سال کا لڑکا ایک شرابی کا کردار ادا کر رہاہے اور گانا گا رہا ہے ایک دوست کے مطابق ہزاروں افراد نے اس گانے اور اسکے دیگر نشہ آور اشیاءکے بارے میں گائے جانے والے گانوں اور ویڈیوز کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اس کو واٹس ایپ اور دیگر فورمز پر پھیلایا بھی ‘اب ان ویڈیوز کے ذریعے ہم نئی نسل اور نوجوانوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا ہم ان کے ذریعے آئس ‘شراب اور دیگر نشہ آور اشیاءکے استعمال کی ترغیب نہیں دے رہے؟ کیا ہم چرس اور آئس کو معاشرے میں مزید پھیلانے کا سبب نہیں بن رہے؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں اردو‘ پنجابی اور پشتو فلموں اور سی ڈی ڈراموں میں چرس ‘شراب اور نشے کے ساتھ ساتھ کلاشنکوف اور رقص و سرور کے کلچر کو بھی فروغ دیا گیا مگر نہ ہی متعلقہ محکموں اور نہ ہی معاشرے نے اس حوالے سے عملی قدم اٹھایا تاکہ آنے والے ڈراموں اور فلموں میں اس کو ختم کیا جاسکے آج بھی مقامی شو‘ ایک پائنچہ اٹھا کر بوتل ہاتھ میںلے کر کسی پشتو فلم کے ہیرو کی نقل کرتے ہیں اور پھر انہی ویڈیوز کو ٹک ٹاک‘ واٹس ایپ‘ یوٹیوب اور دیگر فورمز پر پھیلاتے ہیں بدقسمتی سے نہ صرف متعلقہ محکمے اور معاشرے کے ذمہ دار بلکہ والدین اور اساتذہ بھی اس معاملے میں کافی قصور وار ہیں کیوں والدین اوراساتذہ اپنے بچوں اور بچیوں کے ہاتھ میں موبائل دے کر ان سے بے خبر ہوجاتے ہیں ؟ ٹھیک ہے موبائل رابطے‘ تحقیق اوردیگر اہم کاموں کیلئے ایک بڑی ضرورت ہے مگر والدین اور اساتذہ کا یہ بھی فرض ہے کہ بچوں اور بچیوں کو یہ سبق بھی دیں کہ یہ سہولت صرف مثبت استعمال کیلئے ہے ان کی تربیت کریں کہ وہ موبائل‘ لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کو غیر اخلاقی مواد دیکھنے یا پھیلانے ‘ رات بھر نامحرم کیساتھ گپ شپ لگانے اور ویڈیو کالز یا تصاویر کے لئے استعمال کرنے کی بجائے اس کا مثبت فائدہ اٹھائیں بچیوں کو لازمی یہ تعلیم گھر میں اورسکولوں و کالجوں میں دینی چاہئے کہ اگر وہ کسی سوشل میڈیا فورم پر یا کسی خاتون یا مرد دوست کیساتھ اپنی تصاویر ویڈیو یا کوئی بھی رازشریک کرتی ہیں تو آنے والے سالوں اور مہینوں میں اس کا غلط استعمال کرکے ان کو بلیک میل کیا جاسکتا ہے اور ان کی خواش و خرم زندگی برباد ہو سکتی ہے گزشتہ دنوں چند دوستوں نے بھی اس طرف توجہ مبذول کروائی کہ والدین اور اساتذہ آٹھویں جماعت کے بعد کی بچیوں اور بچوںکو لازما ًاس حوالے سے تعلیم دیں تاکہ نہ صرف ان کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو اور وہ پڑھائی پر دھیان دیں بلکہ کوئی ان کو پھانس کر بعد میں بلیک میل نہ کرسکے ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اب اداروں کو نہ صرف ٹک ٹاک بلکہ واٹس ایپ ‘یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا فورمز کے لئے ایسی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے جس میں غیر اخلاقی مواد کو باقاعدہ سنسر کیا جاسکے اور صرف مثبت اور معیاری مواد پھیلایا جا سکے تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں اور نوجوانوں کا مستقبل اور وقت محفوظ بن سکے۔