پولیس اصلاحات اور سہولیات۔۔۔

ساتویں جماعت کے طالبعلم شاہ زیب کی حوالات کے اندر موت نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے وہ کیا عوامل تھے تھے جن کی وجہ سے اس کو یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا؟ پولیس سٹیشن کا سارا عملہ اور حوالات کا سنتری اس وقت کہاں تھے جب وہ خودکشی کرنے جا رہا تھا؟ سی سی ٹی وی سے براہ راست مانیٹرنگ کا کیا فائدہ اگر حوالات میں خودکشی کو نہیں روکا جاسکتا؟ بچے کو آخر کیا خوف یا ندامت تھی جس کی وجہ سے وہ گھر جانے سے پہلے ہی اپنی جان لینا چاہتا تھا؟ ان سارے سوالات کا جوابات تو آئندہ دنوں میں سامنے آئیں گے مگر اس واقعے کے بعد پولیس کو لازمی احساس ہوگیا ہوگا کہ متعلقہ افسران اور اہلکاروں نے کس طرح حوالات کے اندر بھی لوگوں کی جانوں کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ پولیس کی کارکردگی پر ایک بڑا سوال اس لئے ہے کہ جو فورس اپنے گھر کے اندر کسی کی جان کی حفاظت نہیں کرسکتی وہ اتنے بڑے علاقے میں لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کیسے یقینی بنائے گی جو اس کا فرض ہے اور جس کیلئے اس کو تنخواہ، مراعات اور اعزازات دئیے جاتے ہیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ اہلکاروں پر مشتمل پولیس فورس کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے مگر چیلنجز کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پولیس فورس اپنے فرائض سے غافل ہوجائے یا اس کیلئے جواز ڈھونڈتا پھرے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دوسرے محکموں کے ساتھ ساتھ پولیس فورس میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے خصوصاً تھانے کی سطح پر اصلاحات کا فائدہ نہ صرف پولیس کو ہوگا بلکہ کروڑوں عام لوگوں کو بھی ہوگا جن کا روزانہ ناکہ بند یوں اور دوسری جگہوں پر پولیس کے ساتھ واسطہ رہتا ہے۔ بچے کے جاں بحق ہونے کے فوراً بعد سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر اس بات کی ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ نہ صرف پولیس بلکہ قانون نافذ کرنے والے ان تمام اہلکاروں کو جن کا ناکہ بندیوں اور دیگر مقامات پر عام آدمی کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے کو یہ تعلیم دینا بے حد ضروری ہے کہ کس طرح مرد خاتون اور بچے کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھنا ہے کس طرح ان کی عزت نفس کا خیال رکھنا ہے کس طرح بچے یا خواتین کو عام حوالات کی بجائے مخصوص جگہ پر بحفاظت رکھنا ہے ان کی بے عزتی نہیں کرنی اور ان کو سزا صرف ان کی اصلاح کیلئے دینی ہے وہ بھی عدالت نے۔ شاہ زیب کے واقعے کے بعد نہ صرف متعلقہ ایس ایچ او اور چند دیگر اہلکاروں کو حراست میں لیاگیا بلکہ تھانے کا عملہ معطل کرکے عدالتی تحقیقات کیلئے بھی درخواست جمع کردی گئی۔ مگر کوئی بھی عمل شاہ زیب کی والدہ کو اس کا لعل واپس نہیں کرسکتی۔ البتہ اصلاحات کے ذریعے اور ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تربیت اور تعلیم کے ذریعے کہ وہ ہر شخص کے بنیادی انسانی حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھے اس کے ذریعے آنے والے دنوں میں بہت کچھ بہتر بنایاجاسکتا ہے ۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں گزشتہ چند سالوں کے دوران عوام نے جس انداز میں پولیس کے شہداءاور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عوام نہ صرف ان کی قربانیوں سے آگاہ ہے بلکہ اس کی قدر بھی کرتی ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عوام پولیس کو اس بات پر یہ حق دے کہ وہ جب چاہے اور جس کو چاہے تشدد کا نشانہ بنائے اور اس کی بے عزتی کرے۔ پولیس اہلکاروں کی قربانیاں لائق تحسین ہیں مگر جو لوگ ڈیوٹی کر رہے ہیں اس کے عوض ان کو سرکارمراعات اور تنخواہ دے رہی ہے اور ان لوگوں نے خود اپنی مرضی سے اس شعبے کا انتخاب کیا ہے۔ عوام اگر مطالبہ کرتی ہے تو صرف میرٹ پر کاروائیوں، تفتیش اور سزاﺅں کا کرتی ہے۔ عوام چاہتی ہے کہ تھانوں کو گاڑیاں پیٹرول ، بجلی، سٹیشنری اور دیگر ضروریات کیلئے تمام جدید سہولیات اور فنڈز فراہم ہوں تاکہ پٹرولنگ اور مانیٹرنگ کا نظام بہتر بنایاجائے مگر عوام یہ بھی چاہتی ہے کہ تھانوں میں ناکہ بندیوں پر اور چھاپوں کے دوران افسران اور اہلکاروں کے رویوں میں بھی بہتری آئے۔ پولیس عام آدمی کی عزت کرے کیونکہ تمام اہلکار حکومت اور عوام کے خادم ہیں ان کے حکمران نہیں۔ عوام چاہتی ہے کہ حوالات میں بے گناہ لوگوں پر تشدد بند ہو۔ لوگوں کو اذیت کا نشانہ نہ بنایاجائے کسی کے گھر کی بے عزتی نہ ہو کسی کے جگر کا ٹکڑا بے موت نہ مارا جائے جو لوگ زیادتیوں، تشدد، لوگوں کو لوٹنے اور ان کی بے عزتی کرنے میں ملوث ہوں ان کو قرارواقعی سزا دی جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور فورس کے سربراہ فیلڈمیں اور تھانوں میں موجود اہلکاروں کو وہ تمام مراعات فراہم کریں جو ان کا حق ہے تاکہ ایس پی سے لیکر کانسٹیبل تک کسی کے پاس بد عنوانی اور لاقانونیت کا جوا زنہ ہو اور اگر اس کے بعد وہ غلطی کر تے ہیں، لوگوں کو لوٹتے ہیں ان کی اور ان کے خاندان کی بے عزتی کرتے ہیں ان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو نہ صرف ان کے خلاف محکمانہ کاروائیاں کی جائیں بلکہ ان کے خلاف متعلقہ قوانین کے تحت پرچے درج کئے جائیں تاکہ دوسروں کو ایسا کرنے سے پہلے ہی روکاجائے۔ اس سے قبل تمام اہلکاروں کی اس حوالے سے کم از کم ایک ہفتہ تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح عام آدمی کے انسانی حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھنا ہے کس طرح خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے اور کس طرح پولیس کا امیج بہتر بناناہے۔