ٹریفک جام اور مٹھی بھرمافیاز۔۔۔۔

پیر کو پشاور کے رہائشیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے ایک بارپھر انتظامیہ کے کمزورپہلوﺅں کو پوری طرح سے بے نقاب کرکے رکھ دیا اورثابت ہوگیاکہ مٹھی بھر افراد جب بھی چاہیں پورے شہرکو جام اورلاکھوں شہریوں کو ذہنی اذیت سے دوچار کرسکتے ہیں اپنے مطالبات کے حق میں مظاہر ہ کرنے والے چند درجن رکشہ ڈرائیوروں نے سورے پل جیسے مرکزی مقام کو بند کرکے پورے شہر کو جام کرکے رکھ دیا خبروں کے مطابق شدید ٹریفک جام کے باعث ایمبولینسز پھنس جانے سے چار مریض جاں بحق ہوگئے کیونکہ ایمبولینسوں کو بھی راستہ نہیں دیا گیا اسی طرح ایک خاتون نے ہسپتال پہنچنے سے قبل ایمبولینس میں ہی بچے کو جنم دے دیا جاں بحق ہونے والے مریضوں کے لواحقین نے اس پر شدید احتجاج بھی کیارکشہ ڈائیور ٹریفک پولیس کی جانب سے پکڑ دھکڑ اور جی ٹی روڈ پر پابندی کی وجہ سے احتجا ج کررہے تھے تاہم احتجاج کےلئے جوطریقہ کار اختیار کیاگیا وہ کسی بھی طور قابل قبول نہیں قراردیاجاسکتا ویسے بھی پشاور کابڑا مسئلہ ٹریفک جام کاہے شہر کی سڑکوں پر ٹریفک جام معمول بن گیا روزانہ کی بنیاد پر چھوٹی بڑی شاہراہوں پر مستقل طور پر ٹریفک جام رہنے لگا شہری سڑکوں پر گھنٹوں ٹریفک میں پھنس جانے ، آلودگی اور شور سے پریشانی اور چڑ چڑے پن کا شکار اور نفسیاتی اور ذہنی مریض بن رہے ہیں بازاروں میں تجاوزات کی بھر مار اور پارکنگ نہ ہونے کے باعث ٹریفک کا نظام بھی متاثر ہورہا ہے اور پیدل آمد ورفت بھی ممکن نہیں رہی فٹ پاتھ یرغمال ہیں ، سڑکوں کے کناروں پر تہہ بازار قائم ہیں جس سے دکانداروں کو باقاعدہ کرایہ دیا جارہا ہے، ٹریفک پولیس ، ضلعی انتظامیہ ، کنٹوٹمنٹ بورڈ انتظامیہ اس صورت حال کو قابو کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں تمام محکمے اور ادارے اس مسئلہ پر قابو پانے کے لئے اقدامات اور منصوبہ بندی کی بجائے ایک دوسرے پر ملبہ ڈال کر اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں، مختلف شاہراہوں اور بازاروں میں تجاوزات کی ایک بھر مار ہے۔ ٹریفک جام سے منٹوں کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے جبکہ بازاروں میں لوگ مجبوراً سڑک پر چلنے پر مجبور ہیں، بسا اوقات ایسی صورت حال سے لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ متعلقہ سرکاری محکمے اس کا نوٹس نہیں لے رہے ہیں، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کے لئے متعلقہ محکموں کے اہل کاروں کو رشوت دی جاتی ہے اس لئے یہ اہل کار ان کے خلاف سخت کاروائی نہیں کرتے۔ وزیر اعلیٰ محمود خان اورچیف سیکرٹر ی ڈاکٹر کاظم نیاز کو ذاتی طور پر اس کا نوٹس لینا چاہئے اور متعلقہ اداروں کو اس ضمن میں ٹائم لائن دینا چاہئے، سٹی سرکلر روڈ جس کی کشادگی پر اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں اس پر رکشہ مستریوں کی دکانوں کے سامنے درجنوں رکشے کھڑے ہوتے ہیں اکثر دکانداروں یا مستریوں نے سڑک پر چارپائیاں یا کرسیاں ڈالی ہوتی ہیں ٹریفک پولیس اکثر اس سٹی سرکلر روڈ پر سے گزرتی ہے لیکن آج تک مستریوں یا دکانداروں کو انہوں نے سڑک پر کرسیاں ڈالنے سے منع نہیں کیا ۔ ٹریفک کے اعلیٰ حکام کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینا چاہئے یوں لگتا ہے کہ اس شہر کو اب طاقتور مافیا کے ساتھ ساتھ مٹھی بھرمافیاز نے بھی یرغمال بنالیاہے مٹھی مافیا سے مراد وہ لوگ ہیں جو جب چاہیں درجن دودرجن کی تعدا د میں سڑکوں پر نکل کر قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں جہاں تک پیر کے ٹریفک جام کاتعلق ہے تو اس روز انتظامیہ عملاً غائب ہوچکی تھی اورشہر کو مٹھی بھر مظاہرین کے رحم و کرم پرچھوڑ دیاتھا اوربعد ازاں انہی کامطالبہ پورا کرتے ہوئے رکشوں پرسے پابندی بھی اٹھانے کافیصلہ بھی کرلیاگیااور منگل کو جی ٹی روڈ پر ایک بارپھر رکشے رواں دواں دکھائی دے رہے تھے سوال یہ ہے آخر پولیس اورانتظامیہ کوئی قدم اٹھاتے وقت پورا ہوم ورک کیوں نہیں کرتی جب رکشوں پر پابندی لگائی جانی تھی اور انتظامیہ کے بقول یہ ہائی کورٹ کے حکم کے تحت کیاجارہاتھا تو اس کےلئے رکشہ ڈرائیویونین اوردیگر سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی زحمت کیوں گوارہ نہیں کی گئی اور جب اس کے خلاف مٹھی بھر لوگوں نے پورے شہر کو جام کرکے رکھ دیاتھا تو اس وقت پولیس اور ا نتظامیہ کہاں غائب تھی اور پھر غیراعلانیہ طورپر پابندی کیوں ہٹالی گئی ہے کیا اس تمام ترمشق سے خود پولیس اورانتظامیہ نے اپنی رٹ پر سوالیہ نشان نہیں ڈال دیاہے ؟اس سلسلہ میں سارا ملبہ ٹریفک پولیس پربھی ڈالنا مناسب نہیں تمام متعلقہ ادارے اور حکام اس صورت حال کے ذمہ دار تھے اور اس حوالہ سے ان سے ٹھیک ٹھا ک بازپرس ہونی چاہئے ساتھ ہی احتجاج کے لیے سڑکوں کو بند رکھنے کو دہشتگردی کے زمرے میں ڈالناچاہئے اس کےلئے قانون سازی کی ضرورت ہوتو ضرور کرنی چاہئے عدالت عالیہ کو بھی اس صورت حال کانوٹس لے کر اپنے فیصلے نہ ماننے والوں کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے اس شہر کے باشندوں کو روز روز کے ٹریفک جام کے عذاب سے نجات دلانے کےلئے اب سب کو بھرپور طریقے سے میدان میں آناہوگا ۔