سپریم کورٹ آف پاکستان نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے میں تاخیر اورلوکل باڈیزآرڈیننس لانے پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک میں کوئی جنگی صورتحال نہیں ۔ دوماہ سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایاجارہا۔ وفاق اورتین صوبوں میں برسراقتدارحکومت کونسل میں مردم شماری نتائج کا فیصلہ نہیں کرپارہی ۔ حکومت ملک چلانے کی اہل نہیں ہے یا فیصلے کرنے کی ان میں صلاحیت نہیں؟ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پنجاب حکومت کا بلدیاتی آرڈیننس سپریم کورٹ پرحملے کے مترادف ہے،جمہوریت بلدیاتی اداروں سے ہی پھلتی پھولتی ہے،لوگوں کوجمہوریت سے متنفرکیا جا رہا ہے۔عوام کوعلم ہونا چاہئے کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔لگتا ہے پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ الیکشن کمیشن کے پاس وہی اختیارات ہیں جوسپریم کورٹ کے پاس ہیں۔ عدالت نے مختصرفیصلے میں قراردیا کہ سندھ، بلوچستان اورخیبر پختونخوا حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے تیارہیں،خیبرپختوخوا اورسندھ میں مردم شماری اورحلقہ بندیوں کے بعد انتخابات ہوں گے۔ عدالت عظمیٰ نے عوامی جذبات کی نمائندگی کی ہے یہ حقیقت ہے کہ ملک میں بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں نچلی سطح پر چھوٹے چھوٹے عوامی مسائل کے حل میں دشواری پیش آرہی ہے۔شہروں اور دیہات کا انتظام و انصرام بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جن میں سڑکوں ،پلوں، پشتوں کی تعمیر،فرش بندی، نالوں،نالیوں اور نہروں کی صفائی، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانا، سکولوں، ہسپتالوں، کھیل کے میدانوں کا انتظام اور دیکھ بھال، پیدائش اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری کرنا، اسناد کی تصدیق ، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب شامل ہیں۔ ان منصوبوں کےلئے صوبوں کی طرف سے بلدیاتی اداروں کو سالانہ کروڑوں اربوں روپے کے فنڈز جاری کئے جاتے ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے یہ فنڈزبلدیاتی ادارے موجود نہ ہونے کی وجہ سے جاری نہیں ہوئے۔بلدیاتی اداروں کے قیام میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی عوام کے مسائل اسی تناسب سے بڑھتے رہیں گے۔ خیبر پختونخوا حکومت کے پاس بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کیلئے یہ جواز موجود ہے کہ سات قبائلی اضلاع کی صوبے میں شمولیت کی صورت میں آبادی میں ایک کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ قبائلی علاقوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں پہلے سے موجود تھیں تاہم ضلع، تحصیل اور ویلج کونسلوں کی حلقہ بندیوں کےلئے وقت درکار تھا۔ گذشتہ ایک سال سے کورونا کی وباءنے کاروبار زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ تعلیمی ادارے اورسرکاری دفاترکبھی کھلتے اور کبھی بند ہوتے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے بھی ان زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات سے قبل مردم شماری اور حلقہ بندیوں کا کام نمٹانے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم دیگر صوبوں کے پاس بلدیاتی انتخابات کرانے میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اصل مسئلہ انتخابات کرانا نہیں ، بلکہ وسائل کی تقسیم کا ہے۔ صوبے اب تک قابل تقسیم محاصل میں سے اپنا حصہ نہ ملنے کا رونا رورہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کو این ایف سی ایوارڈ میں اپنے حصے کی رقم کے علاوہ بجلی کے منافع میں اس کا حصہ اور بقایاجات بھی اب تک نہیں ملے اور ضم اضلاع کی تعمیر و ترقی کےلئے دیگر صوبوں کی طرف سے بھی این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد دینے میں دانستہ طور پر لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ اس وجہ سے صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں بھی تاخیر ہورہی ہے۔ اگر وسائل نہیں ہوں گے تو خالی ہاتھ بلدیاتی نمائندے عوام کی کیاخدمت کریں گے۔ اس لئے تاخیر کی بنیادی وجوہات کا تدارک کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔