لگتاہے کہ قاضی فارمولے پر عملدر آمد ممکن بنانے کے حوالے سے صوبے کی جدوجہد حتمی مراحل میں داخل ہونے والی ہے کیونکہ قاضی فارمولے کے تحت پن بجلی منافع کی ادائیگی کے سلسلہ میں میکنزم طے کرنے کےلئے قائم ٹیکنیکل کمیٹی کے اجلاس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے اجلاس نومارچ کو اسلام آباد میںمنعقد ہوا اس سے قبل یہ اجلاس 16 فروری کو ہونا تھا تاہم پنجاب کی درخواست پر اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے تحت بننے والی ٹیکنیکل کمیٹی کا پہلا اجلاس یکم جنوری کو منعقد ہوا تھا جس میں صوبوں کو قاضی فارمولہ کے تحت ادائیگی پر اتفاق کرتے ہوئے ایک ماہ کے اندر طریقہ کار کےلئے تجاویز طلب کی گئی تھیں اجلاس میں چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ توانائی وآبی وسائل ، فنانس اور پی اینڈ ڈی کے نمائندوں نے شرکت کی تھی خیبر پختونخوا کی نمائندگی صوبائی مشیر توانائی حمایت اللہ خان نے کی تھی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں اس امر پر اتفاق کیا گیا تھا کہ کمیٹی کا کام صرف صوبوں کو رقم کی ادائیگی کے لئے طریقہ کار کرنا ہے رقم کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے جس کے تحت سال 2015,16 کےلئے خیبر پختونخوا کو 128 ارب روپے، جبکہ پنجاب کو 56 ارب روپے ملیں گے تاہم اس رقم میں دیگر مالی سالوں کےلئے اضافہ کیا جائیگا یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ قاضی فارمولہ کو مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے جبکہ سی سی آئی کی طرف سے بارہا اس کی تائید کی جاتی رہی ہے لیکن بوجوہ اس کونظر انداز کیاجاتا رہا خیبر پختونخوا کی سابقہ حکومتوں نے بھی پن بجلی منافع کی ادائیگی کےلئے کافی جدوجہد کی تاہم موجودہ خیبر پختونخوا حکومت نے پن بجلی منافع کے حصول کےلئے سب سے زیادہ اورمﺅ ثر جدوجہد کی ہے ، وزیر اعلیٰ محمود خان اور مشیر توانائی حمایت اللہ خان نے اس ضمن میں اپنا کردار بخوبی نبھایاہے امید رکھی جانی چاہیے کہ ان کی کاوشوں سے جلد صوبے کو بڑی خوشخبر ی ملے گی کیونکہ قاضی فارمولہ کے تحت پن بجلی منافع کی ادائیگی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے اب کمیٹی کا کام صرف صوبوں کو رقم کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کرنا ہے ۔ 2015-16ءکےلئے خیبر پختونخوا کو 128 ارب ملیں گے اس رقم میں دیگر مالی سالوں کےلئے اضافہ کیا جائے گا اب نو مارچ کو ہونے والے اجلاس میں اہم پیشرفت کچھ اس صورت میں سامنے آئی کہ قاضی فارمولہ کے مطابق صوبوں کو پن بجلی منافع کی ادائیگی کےلئے چاروں صوبوںمیں قائم پن بجلی گھر صوبوں کے حوالہ کرنے کی تجویز پیش کردی گئی جبکہ بجلی منافع کےلئے میکنزم تیاری کے حوالہ سے صوبوں اور مرکزنے اپنی اپنی سفارشات بھی پیش کردی ہیں خیبر پختونخوانے سالانہ سبسڈی اور آئی پی پیز کی رقم سے اپناحصہ مانگ لیا دلچسپ امریہ رہاکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی طرف سے تجویز پیش کی گئی کہ چاروں صوبوں میں قائم پن بجلی گھر مرکزی حکومت سے لے کر صوبوں کودینے اوران کو آئی پی پیز کادرجہ دینے کی تجویز پیش کی گئی خیبرپختونخوانے بھی تجویز کی حمایت کی خیبرپختونخواکی طرف سے پیش کی گئیں تجاویز پیش کی گئیںتجاویزمیں کہاگیاہے کہ وفاقی حکومت تین مختلف مدات میں سے صوبے کو رقم دے سکتی ہے اولاًبجلی کی مد سالانہ 343ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے ثانیاً بجلی پر حکومت کی طرف سے سالانہ 386ارب روپے مختلف قسم کے ٹیکسوں اور ڈیوٹی کی مد میں وصول کیے جارہے ہیں ثالثاً حکومت آئی پی پیز کو 430ارب روپے دینے جارہی ہے صوبائی حکومت کامﺅقف ہے کہ ان تینوںمیں سے کسی بھی مد سے صوبہ کو قاضی فارمولے کے تحت 128ارب روپے دیئے جاسکتے ہیںیوں یہ اجلاس پیشرفت کے حوالہ سے اہم ثابت ہوااب ان تجاویز یا سفارشات کے تناظر میںسفارشات کی تیاری اب خصوصی کمیٹی کے اگلے اجلاس میں کی جائے گی صوبائی حکومت کے ذرائع کاکہناہے کہ ہم نے اپنا کیس بھرپور انداز میںپیش کردیاہے اس حوالہ سے جلد ہی اچھی خبر سننے کو ملے گی قاضی فارمولا پر عمل درآمد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ماضی میں وفاقی حکومتوںکا رویہ تھاکیونکہ مرکز میںکسی ایک اورصوبہ میں کسی دوسری جماعت کی حکومت ہواکرتی تھی جس کی وجہ سے پھر ایک دوسرے کے ساتھ عدم تعاون والارویہ اختیار کیاجاتا اوریوں صوبہ اپنے جائز حق سے محروم رہ جاتا آج وفاق اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک ہی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی حکومت ہے جبکہ ساتھ ہی مرکزی حکومت میں خیبر پختونخوا کو ریکارڈ نمائندگی بھی حاصل ہے اسلئے اب قاضی فارمولا پر عمل درآمد کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آنی چاہئے اوراگر پھر بھی ایسا ہوتاہے تو یہ یقینا بہت بڑی بدقسمتی ہوگی قاضی فارمولے کے تحت پن بجلی منافع کی ادائیگی سے صوبہ خیبر پختونخوا میں نہ صرف مزید توانائی بلکہ دیگر ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام شروع ہوجائیگا، توانائی کے منصوبوں میں پن بجلی کے منصوبوں کو اولین ترجیح دی جائے گی توانائی کے بڑے منصوبوں کے مقابلہ میں چھوٹے منصوبے جلد مکمل ہوتے ہیں ان پر اخراجات بھی کم آتے ہیںاضافی رقم ہاتھ آنے سے صوبہ میں تعمیر وترقی کی نئی راہیں کھل سکیں گی اسلئے اب اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیناچاہئے اس سلسلہ میں سب سے اہم کردار اب وزیر اعظم عمران خان کو اداکرناہوگا کیونکہ اسلام آباد کی مخصوص ذہنیت والی بیوروکریسی سابق حکمرانوں کی طرح ان کو بھی غلط مشورے دینے سے باز نہیں آرہی ویسے بھی وزیراعظم طورخم بارڈ ر پر ایک تقریب کے دوران صوبہ کو قاضی فارمولے کے تحت ادائیگی کی واضح طورپر یقین دہانی کراچکے ہیں اب اس یقین دہانی کو ہر صورت پوراکرنے کےلئے انہیں وفاقی بیورو کریسی کے مخصوص کل پرزوں کی بجائے خیبرپختونخوا کی ڈٹ کر حمایت کرنی چاہئے اوریقینا پھر تاریخ میںیہ کریڈٹ بھی انہی کو دیا جائےگا۔ نوٹ ،چنددن قبل جیم سٹون انڈسٹری کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں بھارت کی جیم سٹون برآمدات 80ارب ڈالر لکھی گئی تھیں جودرست نہیں درحقیقت بھارت کی جیم سٹون برآمدات لگ بھگ 80ارب روپے بنتی ہیں اس سلسلہ میں بعض قارئین کی طرف سے تصحیح پر شکرگذار ہوں ۔