پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بارش ہونے سے پانی آنے اور زیادہ بارش ہونے سے زیادہ پانی آنے کی بات کی تو پورے ملک میں اس کا مذاق بنایاگیا۔ حالانکہ بات ان کی درست تھی۔ صرف اندازغیر سیاسی تھا۔وفاقی وزیرتوانائی نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی ہے مگر ان کی بات کا انداز سیاسی ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت بڑھنے کی صورت میں پاکستان میں بجلی مہنگی ہوگی گرمیوں میں بجلی کی پیک ڈیمانڈ 24ہزار500 میگاواٹ سے زیادہ ہو گی وفاقی وزیرکا کہناتھا کہ ملک میں 70 فیصد بجلی درآمدی فیول سے پیدا ہوتی ہے۔بجلی کے نرخ نہ بڑھے تو سرکلرڈیٹ میں اضافہ ہوگا اوربجلی مہنگی ہونے کی ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت نہیں۔ انہوں نے اس تاثر کوغلط قرار دیا کہ نجکاری سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین بے روزگار ہوں گے‘انکا کہنا تھا کہ بجلی تقسیم کار کمپنیاں پہلے ہی سٹاف کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہیں صرف پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی میں 26ہزار آسامیاں خالی ہیں اور ہر اہلکار کو تین تین بندوں کی جگہ کام کرنا پڑرہا ہے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی سابقہ حکومتوں نے بجلی کی ضروریات پوری کرنے کےلئے کبھی تھرمل پاور پلانٹ لگائے کبھی کرائے کے بجلی گھر منگوائے۔لیگی رہنما آج بھی ملکی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کو اپنی حکومت کا بے مثال اور یادگارکارنامہ قرار دے رہے ہیں مگر عوام سوچ رہے ہیں کہ اگر ملک میں ضرورت سے زیادہ بجلی موجود ہے تو عوام کولوڈ شیڈنگ کے عذاب میں کیوں مبتلا کیاجاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو آبی ذخائر سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے۔ اگر خیبر پختونخوا کے دریاﺅں پر بند باندھے بغیر بھی بجلی گھر بنائے جائیں تو چند سالوں کے اندر نہایت کم لاگت سے کم از کم پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے جو ہماری مجموعی قومی ضروریات سے کہیں زیادہ ہے اگردریائے چترال،دریائے سوات ‘دریائے پنج کوڑہ دیر‘دریائے کنہار‘ دریائے سرن‘ دریائے کرم اور صوبے کے دیگر دریاﺅں اور ان میں شامل ہونے والی ندیوں کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بنائے جاتے تو عوام کو دو روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی بھی ملتی اور لاکھوں افراد کو مستقل روزگار بھی مل جاتا۔ کارخانے قائم کئے جاتے جس میں مزید لاکھوں افراد کو روزگار ملتا۔ مگر سابقہ حکمرانوں نے فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کے مہنگے یونٹ خریدے جن پر ماہانہ اربوں روپے تیل کا خرچہ آتا ہے۔ اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ہر مہینے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیاجاتا ہے۔ آج پاکستان کے عوام کو اٹھارہ روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی مل رہی ہے پانی ذخیرہ کرنے کےلئے ملک میں ڈیم بنانے کی ضرورت بھی ایوب خان دور کے بعد کسی بھی حکومت نے محسوس نہیں کی۔ دیامربھاشا ڈیم کا نعرہ ہر حکومت لگاتی ہے مگر اس کا اب تک سنگ بنیاد بھی نہیں رکھا جاسکا۔موجودہ حکومت نے بھی صاف بتادیا ہے کہ تیل مہنگا ہوگا تو بجلی بھی مہنگی ہوگی۔ گویا ہمیں آنے والی گرمیوں میں بھی بجلی کی ہلاکت خیز لوڈ شیڈنگ کےلئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔