انتخابی دھاندلی اور میثاق انتخابات۔۔۔

پی ڈی ایم کی طرف سے اسلام آباد کی طرف سے لانگ مارچ پیپلز پارٹی کی طرف سے استعفوں سے انکار کی وجہ سے ملتو ی کیاجاچکاہے اور اس حوالہ سے مختلف النوع قیاس آرائیاں جاری ہیں پی ڈی ایم کے قیام کی بنیاد الیکشن 2018کے حوالہ سے اپوزیشن جماعتوںکے تحفظات تھے اپوزیشن روزاول سے یہ الزام عائد کررہی ہے کہ 2018کے الیکشن پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات تھے اور ان میں منظم انداز میںدھاندلی کرکے پی ٹی آئی کو فتح دلائی گئی اگر دیکھاجائے تو وطن عزیز کی تاریخ میں کوئی بھی انتخابات ایسے نہیں کہ جو کسی نہ کسی طورمتنازعہ نہ رہے ہوں یا جن کے حوالہ سے دھاندلی کے الزامات عائدنہ کئے گئے ہوں اگر بات ملک کے پہلے عام انتخابات یعنی 1970کے الیکشن سے شروع کی جائے تویہ الیکشن تو اس قدر متنازعہ ثابت ہوئے کہ ملک کو دولخت کرنے کا سبب ہی بن گئے عام طورپر کہاجاتاہے کہ صرف 1970کے انتخابات ہی شفاف تھے تاہم حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں بریگیڈئیر صدیق سالک اپنی کتاب ”میںنے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا “میںرقمطراز ہیں کہ الیکشن مہم کے آغاز پرہی مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے منظم اندازمیں دیگر سیاسی جماعتوں کے انتخابی اجتماعات کو سبوتاژ کرنا شروع کیا جس پر انتظامیہ نے خاموشی اختیار کرلی اوریوں پھر یکطرفہ انتخابی مہم چلی اسی طرح ایک بار ملاقات کے دوران سابق وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے راقم کو بتایاکہ وہ خود ان دنوں مشرقی پاکستان میں تھے پوری انتخابی مہم یکطرفہ تھی اور عوامی لیگ کی غنڈہ گردی کے سامنے دیگر جماعتیںبے بس ہوچکی تھیں اس قسم کے کئی اورگواہ بھی موجودہیںاسی طرح مغربی پاکستان کے حوالہ سے یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے بعض مخصوص جماعتوںکی خصوصی سرپرستی کی گئی یوں پہلے عام انتخابات ہی متنازعہ رہے جس کے نتیجہ میں ملک دولخت ہوا باقی ماندہ پاکستان میں 1977میں ایک بارپھر ا نتخابات ہوئے تو اپوزیشن اتحاد پی این اے نے قومی اسمبل کے الیکشن میں حکومت پر بدترین دھاندلی کے الزامات عائدکرتے ہوئے دودن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کابائیکاٹ کردیا اورپھر حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک چلائی یوں وطن عزیز کے دوسرے عام انتخابات کے نتیجہ میں بدترین مارشل لاءلگ گیا جنرل ضیاءنے 1985میں غیر جماعتی بنیادوںپرانتخابات کروائے تو ایم آرڈی میں شامل جماعتوںنے مکمل بائیکاٹ کیا البتہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے ان میں حصہ لیا ان الیکشن کو کبھی قبولیت کی سند حاصل نہیں ہوسکی 1988ءمیںالیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی کاراستہ روکنے کےلئے راتوںرات آئی جے آئی کے نام سے اتحاد بنوایا گیا اورپھر آئی جے آئی نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا 1990میں انتخابات ہوئے آئی جے آئی کامقابلہ پی ڈی اے سے تھا آئی جے آئی نے الیکشن جیتے تو پیپلز پارٹی اورپی ڈی اے کی دیگر جماعتوں نے ان کے نتائج قبول نہیں کیے 1993میں الیکشن ہوئے مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کے درمیان محض دس بارہ نشستوں کافرق تھا مسلم لیگ ن نے نتائج قبول نہیں کیے 1997کے الیکشن کاجائز ہ لیا جائے تو مسلم لیگ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ برسراقتدار آئی مگر سوائے اے این پی کے باقی تمام جماعتوںنے دھاندلی کے الز امات عائد کرتے ہوئے پہلے دن سے ہی حکومت کے خلاف محاذ گرم کرناشروع کردیاتھا اور پھر1999ءمیںجنرل مشرف کی آمد ہوئی تین سال بعد 2002میں عام انتخابات ہوئے اگر ہم اپنے صوبے کی بات کریں تو اس وقت اے این پی ،پی پی پی ،ن لیگ اوردیگر جماعتیں ایم ایم اے کی جیت کو مشکوک بناتی رہیں اوراسی میں پانچ سال گذر گئے 2008ءمیںالیکشن ہوئے خیبرپختونخوا میں اے این پی پہلی بار سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر سامنے آئی اے این پی کی اس جیت کو جے یو آئی ،ن لیگ ،پی پی پی ،پی پی پی شیرپاﺅ اوردیگر جماعتوں نے واشنگٹن میں پختونوں کامقدمہ لڑنے کے اعلانات کے تناظر میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کانتیجہ قراردیااورپھر پانچ سال تک اے این پی اس حوالہ سے طعنے سنتی رہی پھرجب 2013ءکے الیکشن ہوئے تو مرکز میں ن لیگ فاتح بن کرسامنے آئی یہ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے کہ جیتنے والی جماعت سمیت تمام جماعتوں نے دھاندلی کے الزاما ت عائد کیے ن لیگ چونکہ خیبرپختونخوامیں ہارگئی تھی اس لیے اس نے یہاں پی ٹی آئی کی جیت کو مہربانوں کی مہربانی قراردیا پی ٹی آئی نے پنجاب اورمرکز میں انتخابی دھاندلی کے الزامات عائد کیے یہی حال دیگر جماعتوں کابھی رہا اورپھر 2018کے انتخابات کے بعد سے جو کچھ ہورہاہے وہ سب کے سامنے ہے اگر اس تناظر میںدیکھاجائے تویہ پیشگوئی کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اگلے عام انتخابات ان سب سے بڑھ کرمتنازعہ ہونگے اور انتخابی دھاندلی کے الزامات کی روایت اسی طرح قائم ودائم رہے گی کم ازکم اب تو انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے حکومت اوراپوزیشن کو ایک آوازہوناچاہئے رولز آف گیم مل کر طے کیے جائیںاورپھر مشترکہ ضابطہ اخلاق تشکیل دیا جائے بہتر ہوگاکہ میثاق انتخابات کیا جائے جس میں تمام متنازعہ امور ہمیشہ کےلئے طے کرلیے جائیں اس سے پہلے کہ انتخابی اصلاحات کےلئے پھر ماہرین پر مشتمل قومی حکومت کی تجویز پھر کہیں کونے کھدروں سے نکل آئے اورپھر سیاسی جماعتوں کو الیکشن کےلئے طویل انتظار کرناپڑے ویسے بھی ہرالیکشن میں دھاندلی کے الزامات سے خودانتخابی وپارلیمانی سیاست کی ساکھ متاثرہورہی ہے اور لوگ تیز ی سے بددل ہوتے جارہے ہیں جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق انتخابات کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھاہونا ہوگا کیونکہ پھر بددل ہونے والی قوم کااعتماد انتخابی نظام پربحال کرنا کسی بھی جماعت کےلئے آسان امر نہ ہوگا اور نت نئے تجربات کی قیمت تمام سیاسی جماعتیں بھی ادا کریں گی۔