خیبرپختونخوا اور ملک بھر میں گزشتہ چند سال کے دوران دیگر نشہ آور اشیاء کے ساتھ آئس کے عادی افراد کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے وہ نہ صرف حکومت اور اس کے اداروں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کے لئے باعث تشویش ہے‘چند سالوں کے دوران سینکڑوں لوگ گرفتار کئے گئے‘ہزاروں کلوگرام نشہ آور اشیاء تحویل میں لیکر تلف کی گئیں‘آئس کے حوالے سے خصوصاً نئے قوانین بنائے گئے‘پولیس اور اے این ایف کے علاوہ اب ایکسائز اور نارکاٹکس کنٹرول کو آئس‘ہیروئن‘چرس کے حوالے سے مزید اختیارات دیئے گئے‘اداروں کو بااختیار بنایا گیا تاکہ وہ ہیروئن آئس اورچرس تیار کرنے‘اس کی سمگلنگ اور خریدوفروخت کرنے والے افراد اور گروہوں کے خلاف کاروائیاں تیز کرسکیں مگر مزید اختیارات اور وسائل کے باوجود صورتحال میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی بلکہ اعدادوشمار سے تو یہی لگ رہا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران آئس کے نشے میں مبتلا افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے روزانہ بے شمار لوگوں کی گرفتاری اور ان سے آئس ہیروئن اور چرس کی برآمدگی کا سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے مگر حکومت‘انتظامیہ اور بے شمار محکموں کے ہزاروں اہلکار نوجوان نسل کو نشہ کی لعنت سے مکمل نجات دلانا تو ایک طرف اس میں کمی لانے میں بھی کامیاب نہیں ہو پا رہے‘ خیبرپختونخوا میں گزشتہ دنوں صوبہ بھر کی پولیس کو آئس اوردیگر نشہ آور اشیاء کے کاروبار میں ملوث افراد اور گروہوں کے خلاف کاروائیاں مزید تیز اور موثر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے یہ کاروائیاں اس وقت زیادہ موثر ہونگی جب فیلڈ میں موجود افسران اور اہلکار محض خانہ پری‘20اور 30گرام آئس ہیروئن یا چرس کی برآمدگی ظاہر کرکے کاروائی ڈالنے اور محض افسران یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بجائے واقعی میں اس لعنت سے نوجوان نسل کو چھٹکارا دلانے کیلئے دن رات کام کرینگے پشاور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آپریشنز یاسر آفریدی نے گزشتہ دنوں آئس کے خلاف کاروائیوں کے حوالے سے اعدادوشمار بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جنوری کے مہینے میں 19کلوگرام اور فروری میں 22کلو گرام آئس برآمد کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس نے کئی بڑی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالا ہے جو شہری اور دیہی علاقوں اور دیگر اضلاع میں آئس فراہم کرتے تھے اور ساتھ ہی یونیورسٹیوں‘کالجوں‘ہاسٹلز اور اسکے اردگرد علاقوں میں آئس فراہم کرکے نوجوان نسل کو نشانہ بنا رہے تھے‘یاسر آفریدی کے مطابق ایک ہیوی آئس ڈیسک بھی قائم کیا گیا ہے جس میں اچھی شہرت کے قابل افسران تعینات کئے گئے ہیں جن کو صرف ایک ہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ شہر اور اردگرد علاقوں میں آئس بنانے‘ فروخت کرنے‘ سمگل کرنے والے اور استعمال کرنے والوں کی نشاندہی کرینگے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال آئس کے خلاف کاروائیوں میں مردان ریجن سرفہرست رہا ہے جہاں 115 کلو گرام آئس برآمد کرکے کئی گروہوں کے خلاف کاروائیاں کیں‘مردان کے ضلعی پولیس افسر ڈاکٹر زاہد اللہ جان کے مطابق نہ صرف پولیس ہر تھانے کے علاقے میں آئس ہیروئن اوردیگر نشہ آور اشیاء کے خلاف بھرپور آپریشنز کررہی ہے‘پشاور اورمردان میں بڑی کاروائیوں کے باوجود دیگر ڈویژنز میں آئس کے خلاف گزشتہ سال کاروائیاں کچھ زیادہ تیز نہیں رہیں جس کی وجہ ایک تو یہ ہو سکتی ہے کہ شاید ان علاقوں میں آئس کا استعمال پشاور اور مردان ڈویژن کے مقابلے میں کم ہے اگر ایسا نہیں تو پولیس کو بنوں‘کوہاٹ‘ڈیرہ اسماعیل خان‘ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن میں بھی آئس کے خلاف آپریشنز اور آگاہی مہم تیز کرنی چاہئے کیونکہ گزشتہ سال ان پانچ ڈویژنز سے مجموعی طور پر39کلوگرام آئس برآمد کی گئی۔