وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے اور انتخابی اصلاحات کے لئے آئینی ترمیمی بل لانے کا فیصلہ کرلیا‘آئینی ترمیمی بل میں گلگت بلتستان کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دینے اور سینیٹ الیکشن کے ووٹ کو قابل شناخت بنانے کی تجویز دی جائے گی۔ آئینی ترمیمی پیکج پر تجاویز کے لئے سپیکر اسد قیصر پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں گے۔حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو الیکشن جیتنے کے بعد حلف سے پہلے دوہری شہریت ترک کرنا ہوگی۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ حاصل ہوگا، اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی ملے گی، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار گلگت بلتستان تک بڑھایا جائے گا۔دریں اثناء وزیراعظم نے سپیکر قومی اسمبلی کے نام مراسلے میں انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی ہے۔ قبل ازیں گلگت بلتستان اسمبلی نے متفقہ قرارداد کے ذریعے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ آئین میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ بنایاجائے۔ خطے کی موجودہ جیو سٹریٹجک صورتحال میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے لئے آئین میں ترمیم کا حکومتی فیصلہ بلاشبہ جرات مندانہ ہے۔ اس سے نہ صرف گلگت بلتستان کے محب وطن عوام کو قومی شناخت مل جائے گی دوسری جانب کشمیر سمیت باہمی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے سلسلے میں بھارت پر دباؤ پڑے گا۔ وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی پوزیشن تبدیل کرنے کے حوالے سے بھارت کی طرف سے اگست2019ء کے اقدامات کے بعد پاکستان مذاکرات کے لئے پہل نہیں کرے گا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل نے بھی حال ہی میں پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادت پر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے۔ جہاں تک آئین میں ترمیم کا سوال ہے حکومت کے پاس آئین میں ترمیم کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں۔ اس لئے تمام پارلیمانی جماعتوں کو اس اہم قومی ایشو پر اعتماد میں لینے اور ترمیمی بل متفقہ طور پر پاس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت اوربین الاقوامی برادری کو یہ واضح پیغام دیا جاسکے کہ پاکستانی قوم اپنی قومی سلامتی کے معاملے پر متحد اور متفق ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے سیاست میں پیسے کے لین دین کا تدارک کیا جاسکے۔ اس حوالے سے سینیٹ الیکشن سے قبل حکومت نے ایک بل بھی اسمبلی میں پیش کیاتھا۔ اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے وہ بل پاس نہ ہوسکا۔ حکومت نے شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹ انتخابات کرانے سے متعلق صدارتی آرڈیننس نافذ کردیاتاہم عدالت عظمیٰ نے آرڈیننس کو کالعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات کے لئے موثر انتظامات کرنے کا حکم دیا۔ عدالتی فیصلہ سینٹ انتخابات سے صرف ایک دن پہلے آیااور الیکشن کمیشن کے لئے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں انتخابی عمل کو تبدیل کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے پرانے طریقہ کار کے تحت انتخابات ہوئے جس پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے اعتراضات ہوئے ہیں۔ ایک بار اتفاق رائے سے انتخابی قوانین میں ترمیم کو آئین کا حصہ بنایا گیا تو سیاست میں پیسے کے عمل دخل کی روایت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگا۔