اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں۔۔۔

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخابات کے بعد گیارہ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اختلافات کا شکار ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفے دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ بے سود ہوگا۔ ایک انٹرویو میں مولانا کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے جواب کا انتظار ہے اس لئے لانگ مارچ کی تاریخ موخر کی گئی ہے۔اگر تحریک میں تسلسل نہیں ہوگا تو کارکن بہتر طریقے سے کام نہیں کرسکیں گے ،پیپلزپارٹی کو جمہوریت کے مطابق 9پارٹیوں کے فیصلے کو تسلیم کرناچاہئے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں مولانا عبدالغفور حیدری کو کم ووٹ ملنا ہماری اپنی صفوں میں انتشار کا مظہر ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ نامزد کرنے پر ہم نے پیپلزپارٹی سے کوئی ضد نہیں کی تھی ہم سب اتحادی ہیں تو اس معاملے کو اتحادی کی نظر سے دیکھنا ہوگا حریف کی نظر سے نہیں ۔دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کو اپوزیشن اتحاد سے نکالا گیاتو پی ڈی ایم اپنے پاﺅں پر خودکلہاڑی مارے گی،لانگ مارچ ملتوی ہونے سے پی ڈی ایم کو دھچکا لگا ہے ،مریم نواز اب تک پی ڈی ایم کو ڈکٹیٹ کرتی تھیں، گوجرانوالہ میں جاکر انہوں نے اعلان جنگ کیا اور کسی کو اعتماد میں بھی نہیں لیا گیاانہوں نے کہا کہ ہمیں کہاجاتا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے دیں اور جیل بھی جائیں جبکہ نواز شریف،اسحاق ڈار باہر بیٹھے ہیں۔حکومت کے خلاف گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کےلئے اپوزیشن جماعتوں نے اپنے نظریاتی اور سیاسی اختلافات کو کچھ عرصے کےلئے بالائے طاق رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اپوزیشن کو توقع تھی کہ حکومت ان کے سامنے دو چار مہینے سے زیادہ نہیں ٹھہرسکتی۔ لیکن بات جب بڑھ گئی تو پرانے زخم تازہ ہونے لگے استعفوں کی صورت میں اگر خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے تو کیا اپوزیشن ان کا بائیکاٹ کرے گی یا ضمنی انتخاب میں حصہ لے گی۔ اب تک جتنے ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ان میں اپوزیشن نے بھرپور حصہ لیا ہے اور متعدد نشستیں جیت بھی لی ہیں۔ پہلے سے جیتی ہوئی نشستوں سے استعفے دے کر دوبارہ انہی نشستوں پر ضمنی انتخاب میں شرکت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ پی پی پی کی قیادت ملک کو درپیش چیلنجوں سے بھی آگاہ ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر وسط مدتی انتخابات ہوبھی جاتے ہیں تو اپوزیشن کو قومی اور صوبائی سطح پر واضح اکثریت ملنا مشکل ہے۔ اگر پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ اقتدار میں آ بھی گئیں تو ان کے پاس کونسا آلہ دین کا چراغ ہے کہ وہ چھڑی گھما کر حالات کو ٹھیک کردیں گی۔کورونا کی عالمی وباءکی وجہ سے بین الاقوامی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے اور اس کے اثرات مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں پاکستان پر بھی پڑنا فطری امر تھا۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے اور بلیک لسٹ ہونے سے بچانے کےلئے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کو قبول کرنا ہر حکومت کی مجبوری ہے۔ اپوزیشن میں بیٹھ کر شور مچانا تو آسان ہے لیکن اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر فیصلے کرنا بہت مشکل کام ہے۔