شوق مطالعہ سے ذوق مطالعہ تک۔۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ شوق مطالعہ ختم ہوگیاہے مگر کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ شوق باقی ہے البتہ ذوق مطالعہ کافقدان بڑھتاجارہاہے مگر ایسے لوگوں کی کمی ہیں جو ان دونوں سے ہی مبراءہیں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہیں تحریر اور تقریر سے دلچسپی ہوتی ہے، یہ دلچسپی بھی آج کے دور میں غنیمت ہے، ورنہ آج کے نوجوانوں کو کرکٹ اور پاپ میوزک سے فرصت ہی کب ہے؟ان کا سوال یہ ہوتا ہے کہ تحریر و تقریر میں حسن پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ ا س کامسکت جواب یہی ہے کہ ”مطالعہ“۔ مطالعہ کے بغیر لکھنے میں نکھار آتا ہے نہ بولنے میں سنوار۔ اگلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کتنا، کس طرح کا اور کتنی دیر مطالعہ کرنا چاہئے؟ ان تین سوالوں کے تین ہی جوابات ہیں: ”کتنا مطالعہ“ کے جواب میں عرض ہے کہ”ذوق مطالعہ“ اصل بات ہے، اگر یہ پیدا ہو جائے تو نہ دماغ تھکتا ہے اور نہ دل بھرتا ہے، اچھی کتاب سے لے کر کاغذ کی اس پڑیا تک جس میں آدمی ہلدی مرچ لے کر آتا ہے سبھی ایک نظر دیکھنے کو جی چاہتا ہے، اگر ذوق نہ ہو تو کتاب سامنے بھی دھری ہو تو یا اباسی آنے لگتی ہے یا تھکن طاری ہو جاتی ہے یا سر بوجھل محسوس ہونے لگتا ہے، جس طرح دیوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے بھی مشورہ کر لینا چاہئے، اسی طرح کاغذ کا ہر ٹکڑا ایک نظر کا ضرور مستحق ہوتا ہے، ذوق مطالعہ کی یہ قطعاً دلیل نہیں کہ آراستہ و پیراستہ کمرہ ہو، چمک دار جلد کی کتابیں ہوں، چار رنگی طباعت ہو اور آرام دہ کرسی اور صاف شفاف میز ہو، جنہیں قدرت نے ذوق مطالعہ سے نوازا ہے، وہ گلی میں لگے بلب کی روشنی میں بھی اس کی تسکین کر لیتے ہیں، جنہیں مطالعہ سے وحشت ہو وہ ڈرائنگ روم کے قیمتی فانوس سے بھی کوئی استفادہ نہیں کر پاتے۔ اگلا سوال ہے کہ”کس طرح کا مطالعہ کرنا چاہئے؟“ اس کا جواب یہ ہے کہ”وسعت مطالعہ“ موضوع اور کتاب کے انتخاب کا مرحلہ بہت دیر بعد آتا ہے، پہلے ہرنوع کی کتاب پڑھنی چاہئے، اخباری مضامین سے لے کر ٹھوس تحقیقی مواد تک سبھی کا مطالعہ ناگزیر ہے، ایک مدت کے بعد یہ ذوق پیدا ہوتا ہے کہ کتاب دیکھ کر یا سونگھ کر اس کا پورا متن سمجھ میں آجائے، ابتدائی مراحل میں رطب و یابس کی کوئی قید نہیں رکھنی چاہئے، مطالعہ میں وسعت آئے گی تو انتخاب کی نوبت اآسکے گی، درجنوں کتابوں میں سے ایک آدھ کا مواد ذہن میں اترے گا، ڈائننگ ٹیبل پر بہت سے کھانے سجے ہوں گے تو ایک دو پر دل آئے، اگر کھانا ہی ایک ہو تو انتخاب کیسا؟تیسرا استفسار ہوتا ہے کہ کتنی دیر اور کب تک مطالعہ جاری رکھنا چاہئے؟جواب ہے کہ عمر بھر! وہ شخص کبھی عالم نہیں ہو سکتا جو زندگی کے کسی مرحلہ میں مطالعہ سے خود کو بے نیاز سمجھ لے،ایک سچا عالم بستر مرگ پر بھی کتاب سے مستغنی نہیں ہوتا، آکسیجن سے کہیں زیادہ مطالعہ اس کی زندگی کی ضمانت ہوتا ہے، درجن ڈیڑھ کتابیں پڑھ لینے اور سال چھ مہینے مطالعہ کر لینے سے کوئی اچھا ادیب اور اچھا خطیب نہیں بن سکتا۔ امام غزالی اڑتیس برس کی عمر میں جامعہ نظامیہ کے وائس چانسلر کے عہدہ سے الگ ہو کر غور و فکر اور مطالعے کیلئے شہر سے نکل کھڑے ہوئے، دس سال بعد واپس ہوئے، پچپن سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی، درمیان کے سات سال میں ان کے قلم سے یادگار کتابیں نکلیں جنہوں نے فلاسفہ ءیونان کا بھی ہلا دیا، گویا غزالی جیسا شخص رئیس الجامعہ بننے کے بعد بھی مطالعہ کا محتاج اور تلاشِ حق کا آرزو مند رہا۔ میں اگر یہ دعویٰ کروں تو بہت زیادہ جھوٹا نہیں ہوگا کہ کم از کم ا±ردو لٹریچر میں خوب صورت لکھنے والے لوگ خواہ وہ نثرنگار ہوں یا شاعر، زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہیں مکتبی تعلیم تو واجبی سی نصیب ہوئی، مگر مطالعہ کے ذوق، وسعت اور تسلسل نے ان کے ذہن کو مالا مال، زبان کو پاکیزہ اور قلم کو شستہ اور رواں دواں بنا دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد آخر کس دارالعلوم اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے؟ مگر ان کا اسلوبِ نگارش بیسیوں اہل قلم کا آستانہ بنا، جہاں وہ جھکتے رہے۔ خواجہ حسن نظامی بھلا کہاں کے ڈگری ہولڈر تھے کہ علامہ اقبال کو کہنا پڑا ”مجھے اگر خواجہ حسن نظامی جیسی نثر لکھنے پر قدرت ہوتی تو میں کبھی شاعری کو ذریعہ اظہار نہ بناتا۔“ یہی حال شورش کاشمیری کا ہے، نہ سکول گئے، نہ مدرسہ دیکھا، مگر ان کی شاعری ہو یا نثر، کہنا پڑتا ہے: ”اٹھے تو بجلی پناہ مانگے، گرے تو خانہ خراب کردے“احسان دانش بھی عمر بھر مزدور ہی رہے، کبھی کانجی ہاﺅ س کے چوکیدار، کبھی مالی، کبھی ماشکی، مگر ان کی شعری و نثری کاوشوں اور خوب صورتی دیکھ کر بے اختیار منہ سے نکلتا ہے: ”یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے“۔ مرحوم غالباً پرائمری پاس بھی نہیں تھے، مگر شورش ان کی شاگردی پر عمر بھر نازاں رہے اور اصلاح لیتے رہے۔ماہرالقادری مرحوم جیسا زبان کی ثقاہت اور لطافت کا نمائندہ شخص بھی کوئی اندرون یا بیرون ملک جامعہ کا طالب علم نہیں رہا لیکن ذوقِ مطالعہ اور ممارستِ فکر نے ان کے قلم کو وہ جولانی بخشی کہ دقیق سے دقیق موضوع ان کے ہاتھ میں پہنچ کر پانی بن جاتا تھا۔ کس کس کا نام لیا جائے؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سکول، کالج یا دارالعلوم کی تعلیم ضروری نہیں، کہنا یہ ہے کہ اصل چیز ڈگری نہیں، پاکیزہ فکری ہے۔جو شخص بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کے قلب میں ذائقہ اور اس کی زبان میں رونق آجائے، اسے چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے، دینیات، تاریخ، فلسفہ، ادب، سوانح، عمرانیات، سیاسیات، عصریات جو کچھ میسر ہو، اسے نعمت سمجھے، ایک وقت آئے گا اسے قدرت حق و باطل میں تمیز بھی عطا کر دے گی، جھوٹ سچ میں امتیاز کا ملکہ بھی پیدا ہو جائے گا، وہ ثقاہت اور ظرافت میں فرق بھی کرسکے گا اور معیاری اور بازاری لٹریچر میں حدفاصل بھی قائم کر سکے گا۔