حق مہر۔کتابیں

 
 ہمارے ہاں شادی میں نت نئی روایات کا اضافہ ہو رہا ہے خود نمائی کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہاہے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو شادی پر اتنا منفرد اور مثبت کام کر جاتے ہیں کہ نہ صرف معاشرے میں انکی عزت اور مقام میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ بہت سے لوگ ان کی تقلید میں اس مثبت رواج کو مزید پروان چڑھاتے ہیں بین الاقوامی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر گزشتہ دنوں خیبرپختونخوا میں چند دن قبل ہونے والی شادی کے احوال پر ایک لمبی تحریر دیکھی تو خوشی کے ساتھ فخر کا احساس بھی ہوا کہ ہمارے ہاں آج بھی ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں جو فضول رواجوں کی بجائے مثبت رواج ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں تحریر میں دلہن نائلہ شمال جن کا تعلق چارسدہ کی تحصیل تنگی سے ہے کے بارے میں بتایا گیا کہ جب ان سے کہا گیا کہ 15منٹ میں سوچ کر خود بتائیں کہ وہ حق مہر میں کیا چاہتی ہیں تو سوچ سمجھ کر انہوں نے جواب دیا کہ انہیں حق مہر میں شوہر کی طرف سے کتابیں دی جائیں شادی کے بعد انکے کمرے میں ہر جگہ کتابیں ہیں جو حق مہر میں نائلہ کو انکے شوہر ڈاکٹر سجاد ژوندن نے دی ہیں سجاد کا تعلق مردان سے ہے انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے جبکہ انکی اہلیہ ابھی پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اس خوش بخت جوڑے کے حق مہر کے خانے میں ایک لاکھ  روپے کی کتابیں درج ہیں اور یوں نہ صرف کسی بھی جوڑے کے نکاح میں دیا جانا والا ایک منفرد حق مہر ہے بلکہ ان تمام خاندانوں کیلئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے جو سمجھتے ہیں کہ غیر ضروری رواج اور رسموں کو شادی سے ختم کرکے اس میں مثبت رسموں کو فروغ دیا جائے خدا اس پڑھے لکھے اور سلجھے مزاج کے جوڑے کی زندگی میں برکت ڈالے جن کی شادی یقینا بہت سوں کیلئے ایک مثال ہے اور جس سے بہت سے نئے جوڑے سیکھ کر اپنی شادی میں آسان اور مثبت رسموں کو فروغ دینگے اور بے جا پیسے کے خرچ کی مخالفت کرینگے ہمارے ہاں ایک عرصے سے شادی بیاہ کی رسمیں مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہیں ابھی تو لوگوں نے ڈیڑھ دو ہزار مہمانوں کی بجائے سات آٹھ ہزار مہمانوں کو بلانے کا سلسلہ شروع کیا ہے شادی کی رسمیں دو تین ہفتہ جاری رہتی ہیں روزانہ100‘200 لوگوں کے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر کسی غریب کو خیرات دینے کا خیال کسی کو نہیں آتا ولیمہ بھی اگر اسلامی اصولوں کے مطابق کیاجائے تو یہ بھی ایک بڑا صدقہ ہے مگر ہمارے ہاں یہ اب خودنمائی اور لوگوں کو مرعوب کرنے کا موقع بن گیاہے غریبوں کو دروازے سے ہی واپس کردیا جاتا ہے عہدے والوں اور پیسے والوں کیساتھ لوگ آآکر سیلفیاں اور تصاویر بنواتے ہیں اور پھر فیس بک اور دیگر فورمز پر پوسٹ کرکے سمجھتے ہیں کہ لوگ اس سے مرعوب ہونگے گزشتہ دنوں ایک دوست نے کہا کہ ہم سالوں کسی چیز کو پانے کیلئے صرف اس لئے محنت کرتے ہیں کہ پھر اس کے ذریعے لوگوں کو متاثر کیا جا سکے خا ص کر ان لوگوں کو جن کے ساتھ زندگی میں ایک آدھ بارہی ملاقات ہوتی ہے اور جن کا ہماری زندگیوں میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہمارے ہاں خودنمائی کیلئے ہی لوگ حرام ذرائع سے پیسہ کماتے ہیں اور پھر عالیشان گاڑی اور گھر بناکر دھوم دھام سے شادی‘ عقیقہ‘ منگنی اور دوسری تقاریب منعقد کی جاتی ہیں تاکہ آنے والے لوگوں کو اپنے پیسے اور علاقے کے لوگوں کو اپنے مہمانوں اور حلقہ احباب سے متاثر کر سکے لوگوں کو اپنے بہترین اخلاق سے بھی متاثر کیا جا سکتا ہے صدقہ اور خیرات دیکر بھی انکی دعائیں حاصل کی جا سکتی ہیں انکے کام آکرانکو اور خدا کو راضی کیا جا سکتا ہے حلال رزق میں اپنی زندگی گزار کر بھی خداکی رضا حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ آخر میں جو چیز کام آنی ہے وہ صرف اور صرف خدا کی رضا ہے اگر کسی کے ساتھ احسان بھی کیا جائے انکے کام آیا جائے اس سے حسن اخلاق کا سلوک کیا جائے تو اس سب کا مقصد صرف خدا کی رضا ہونی چاہئے کیونکہ نہ تو لوگ متاثر ہوتے ہیں نہ ہی کسی کو اچھا کہتے ہیں اور نہ ہی انکے اچھا یا برا کہنے سے آپکی زندگی میں فرق آتا ہے خدا ہم سب کو سجاد اور نائلہ کی طرح مثبت رواج کو فروغ دینے کتابیں پڑھنے اور مثبت سوچنے اور مثبت کام کرنے کی توفیق دے۔