اگرپی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل کاسیاسی منظرنامہ دیکھیں تو حزب اختلاف میں جے یو آئی سب سے نمایاں ،متحرک اورفعال سیاسی قوت کے طورپر سامنے آتی دکھائی دے رہی تھی جب 2018ءکے انتخابات ہوئے اورپی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت بن کرسامنے آئی تو یہ مولانا فضل الرحمان ہی تھے جنہوں نے تمام شکست خوردہ اور مایوس سیاسی قیادت کو اگلے روزہی ملک بھر سے اسلام آباد میں اکٹھا کیا اور اسی روز سب کو مشورہ دیاکہ چونکہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اس لیے اس مینڈیٹ کو قبول کر نے کے بجائے اسمبلی رکنیت کاحلف نہ لیا جائے اور پہلے دن سے ہی بھرپور احتجاجی تحریک شروع کی جائے تاہم اس وقت بھی دونوں بڑی جماعتوں نے مولانا کے مشورے کو قبول کرنے سے انکار کرکے ایک طرح سے پہلے دن سے ہی حزب اختلاف کے مضبوط اتحاد کی تشکیل کے امکانات ختم کردیئے تھے۔ ایسے میں یہ مولانا فضل الرحمن ہی تھے جنہوں نے بھرپور طریقے سے اپنے کارکنوں کو میدان میں نکالے رکھا ملک بھر میں تن تنہا بڑے بڑے ملین مارچ کرکے دکھائے حتیٰ کہ جب اسلام آباد کارخ کیا تو تمام حلیفوں نے ساتھ چھوڑ دیا مگر اپنے کارکنوں کو کئی روز تک اسلام آباد کے دھرنے میں بٹھائے رکھ کر اپنی جماعت کو ملک کی بڑی جماعتوں کی صف میں لانے میں کامیابی حاصل کی بجا طورپر مولانا فضل الرحمان کو حقیقی اپوزیشن لیڈر قراردیاجانے لگا مہنگائی کے ستائے اورحکومتی پالیسیوں سے نالاں لوگوں نے جے یو آئی کو دیگر جماعتوں کے مقابلہ میں متباد ل سیاسی قوت کے طورپردیکھنا شروع کیا گلی محلوں میں مولانا فضل الرحمان کی پالیسیوں پر بحث ہونے لگیں یہ بجاکہ آزادی مارچ اپنے اہداف کے حصول میں تو ناکام رہا مگر اس نے جے یو آئی کی سیاست میں نئی روح پھونک دی تھی یہی چیز دیکھ کردونوں بڑی جماعتوں کے کان بھی کھڑے ہونے لگے اورپھر پی ڈی ایم بن گئی مولانا فضل الرحمان کو سربراہی سونپی گئی یہ مولانا پر کوئی احسان نہیں تھا بلکہ یہ ایک سیاسی ضرورت تھی کیونکہ دونوں بڑی جماعتیں جان گئی تھیں کہ جاندار تحریک چلانے کےلئے مولانا کے پاس کمیٹڈ سیاسی کارکنوں کی پوری کھیپ موجود ہے مگر آج اگر جائزہ لیاجائے تو پی ڈی ایم کی تشکیل سے لے کر اب تک جے یو آئی ہی خسارے میںدکھائی دیتی ہے اگر ن لیگ کاجائزہ لیا جائے تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مریم نواز کو متحرک ہونے کاموقع ملا اور یوں ان کی سیاسی تنہائی ختم ہوگئی وہ ایک لیڈر کے طورپر سامنے آگئیں میاں نواز شریف نے اداروں پر چڑھا ئی شروع کردی مریم نواز کے متحرک ہونے سے شہباز شریف سائیڈپر ہونے پر مجبورہوگئے یوں ن لیگ کی تقسیم کاخدشہ بھی فی الوقت ختم ہوگیا پیپلز پارٹی کو بھی قدم جمانے کاموقع مل گیا اور آصف زرداری آہستہ آہستہ بارگیننگ کی پوزیشن میں آتے چلے گئے اور اب جس طرح انہوں نے استعفوں کے معاملہ پر پی ڈی ایم کو لال جھنڈی دکھادی ہے اس سے ثابت ہوگیاہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی پی ڈی ایم سے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں جس میں سے ایک یوسف رضاگیلانی کی حفیظ شیخ کے مقابلہ میں جیت بھی ہے بلوچستان کی انتہاپسند قوم پرست جماعتوں کو پنجاب میں بھی دل کا غبار نکالنے کاموقع ملامگر جے یو آئی کادامن خالی ہی دکھائی دیتاہے جس کابڑا ثبوت اکثریت ہونے کے باوجو د اس کے امیدوار کو سینٹ الیکشن میں پی ڈی ایم کے پورے ووٹ نہ ملنے کی صورت میں سامنے آچکاہے مولانا فضل الرحمان ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے مخالف تھے مگر ضمنی الیکشن ہوئے اور پی ڈی ایم کی جماعتوں نے حصہ بھی لیا ،مولانا سینٹ کے الیکشن نہ ہونے دیناچاہتے تھے مگر سینٹ کے انتخابات ہوئے ،مولانا اسمبلیوں سے استعفے چاہتے تھے مگر استعفوں کے معاملہ پر جو کچھ گذشتہ سربراہی اجلاس میں ہوا وہ سب کے سامنے ہے مولانا ہرصورت چھبیس مارچ کو لانگ مارچ چاہتے تھے مگر لانگ مارچ اب عید کے بعد بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تو کیا پی ڈی ایم کی صورت میں جے یو آئی کے حصہ میں صرف خسار ہ ہی آیاہے اس حوالہ سے سوچنا اب اسی کاکام ہے ہمارے نزدیک تو پی ڈی ایم سے پہلے والی جے یو آئی سب سے زیادہ سیاسی فائد ے میں رہنے والی جماعت تھی جس کاسیاسی منافع اب پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتوں نے آپس میں تقسیم کرکے خود مولانا فضل الرحمان کو بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیاہے جے یو آئی کو سوچنا ہوگاکہ وہ دیگردو بڑی جماعتوں کامقدمہ لڑ نے کےلئے کب تک اپنے کارکنوںکو ہلکان کرے گی ان کی توانائی بلدیاتی اورعام انتخابات کےلئے محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے ۔