کورونا وبا (covid-19) کی تیسری لہر میں 1: بیماری کی علامات ’اچانک شدت‘ سے ظاہر ہوتی ہیں۔ 2: اِس کے پھیلنے کا عمل غیرمعمولی طور پر زیادہ اور ماضی کے مقابلے تیزرفتار ہے یعنی کوئی متاثرہ مریض پہلے سے زیادہ صحت مند افراد کو متاثر کر سکتا ہے اور یہ صلاحیت ماضی کے مقابلے ہے۔ 3: کورونا وبا سے کم عمر بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں جبکہ ماضی میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔ 4: کورونا ویکسین لگانے والے افراد بھی اِس مرض سے متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ مرض کے خلاف جسمانی مدافعت اِس مصنوعی طریقے سے پیدا کرنے میں ایک سے دو ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے لہٰذا ہر شخص کو احتیاط کرنا ہے چاہے اُس میں کورونا مرض کی علامات ظاہر ہوں یا نہ ہوں۔ 5: کورونا وبا کی جاری لہر میں تیسری قسم سے متاثر ہونے والوں کو آنکھوں میں درد اور سانس اکھڑنے کی شکایت و علامات بھی ظاہر ہوتی ہے جبکہ ماضی میں مرض کی یہ علامات ابتدا میں نہیں بلکہ مرض کے انتہائی حملے اور پھیل جانے کی صورت میں ظاہر ہوتی تھیں۔ کورونا کی تبدیل ہوئی شکل اور اِن پانچ باتوں (خطرے) سے متعلق ’عوام کو یقین‘ دلانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جملہ ادارے مصروف ہیں جو ”زیادہ احتیاط“ کا مشورہ دے رہے ہیں جبکہ دوسرے محاذ پر حکومت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کاروباری و تجارتی‘ تعلیمی و سیاحتی اور تفریحی سرگرمیوں پر پابندی کے علاوہ ایسے ممالک سے مسافروں کی آمد پر بھی پابندی عائد کئے ہوئے ہے جہاں ’کورونا وبا کی نئی قسم کا وائرس‘ ظاہر ہوا اور اُس سے نمٹنے میں تاحال خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ یہ بات پاکستان جیسے ملک کےلئے تشویش کا باعث ہے کہ ایک تو ہمارے ہاں وبا کی پہلی قسم ہی سے سوفیصدی نمٹنے کے انتظامات اور وسائل نہیں تھے جبکہ دوسری اور تیسری لہر نے علاج معالجے سے متعلق رہی سہی تیاریوں کا بھی پول کھول دیا ہے اور اگرچہ سرکاری علاج گاہوں میں خصوصی شعبے قائم کر دیئے ہیں لیکن بہت کچھ نمائشی اور ناکافی ہے۔ ایک عام آدمی کی شکایت اور بے بسی دیکھنے لائق ہے جسے علاج معالجے بارے اطمینان نہیں۔ تشویشناک ہے کہ 23 مارچ دن گیارہ بجکر چالیس منٹ تک پاکستان میں کورونا وبا سے متاثرہ مریضوں کی کل تعداد 6 لاکھ 33 ہزار 741‘ صحت یاب مریضوں کی تعداد 5 لاکھ 85 ہزار 271 اور اموات 13 ہزار 935سرکاری کوائف (اعدادوشمار بارے مرکزی ڈیٹابیس covid.gov.pk) کا حصّہ ہیں جبکہ برسرزمین حقائق اِس سے زیادہ تلخ ہیں کیونکہ بیماری پھیلنے کی شرح ماضی کے مقابلے دو سے ڈھائی فیصد کی بجائے دس اور بعد علاقوں میں تیس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ صرف ایک مثال سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 22 مارچ کے روز ’مردان میڈیکل کمپلیکس (پشاور سے فاصلہ ستر کلومیٹرز)‘ میں 100 کورونا ٹیسٹ کئے گئے جن میں سے 34 کا نتیجہ مثبت آیا اور اِن متاثرین میں 15 طبی و معاون طبی عملے کے اہلکار شامل تھے۔کہنا آسان ہے لیکن ”رہیے اَحباب سے کٹ کر‘ کہ وبا کے دن ہیں .... سانس بھی لیجئے ہٹ کر‘ کہ وبا کے دن ہیں۔“ عقیل عباس جعفری کی اِس غزل کا ہر شعر حسب حال اور قیمتی اور تاریخ کو سموئے ہوئے ہے‘ جس کے ذریعے آنے والی نسلوں کو شاید موجودہ شب و روز سمجھنا زیادہ آسان ہو جائیں گے۔ جیسا کہ وزیراعظم اور خاتون اوّل پاکستان نے بھی خود کو تنہا (قرنطین) کر رکھا ہے تو ”وہ جنہیں خود سے بھی ملنے کی نہیں تھی فرصت .... رہ گئے خود میں سمٹ کر‘ کہ وبا کے دن ہیں۔“ اِن غیرمعمولی ’وبا کے دنوں‘ کے تجربات بھی ’غیرمعمولی‘ ہیں۔ راقم الحروف گزشتہ بیس دن سے ’کورونا وبا‘ میں مبتلا ہے لیکن ابتدائی دس دن میں جبکہ مرض کی علامات شدت سے ظاہر نہیں ہوئیں۔ منہ کا ذائقہ‘ سونگھنے کی حس اور جسم میں درد یا تھکاوٹ کے آثار ظاہر نہیں ہوئے لیکن جرثومہ پھیپھڑوں (نظام تنفس) میں پھیلتا رہا۔ ابتدا معمولی بخار سے ہوئی اور پھر سب کچھ ڈھیر ہوتا محسوس ہوا کہ سانس لینا اور چند الفاظ کی ادائیگی تک ممکن نہ تھی۔ بیٹھ کر لکھنا‘ پڑھنا اور بیک وقت سانس لینا ممکن نہ رہا۔ سرکاری ہسپتالوں میں آکسیجن والا بستر نہ ملا جبکہ نجی ہسپتال میں یومیہ بستر کا کم سے کم کرایہ پندرہ ہزار روپے مالی استطاعت سے زیادہ تھا۔ متبادل کے طور پر چار ہزار کا نیبولائزر اور تین ہزار روپے کا سٹیمر بمعہ ایک ہفتے کی ادویات بارہ ہزار روپے میں خرید لایا اور گھر کے ایک کمرے کو علاج گاہ میں تبدیل کر دیا۔ 2 روز میں حالت مزید خراب ہوئی تو نجی ڈاکٹر نے صبح شام 20 انجکشن تجویز کئے جن کی قیمت بارہ ہزار روپے تھی جبکہ اپنی فیس (ڈھائی ہزار روپے) اور دیگر ادویات سمیت بائیس ہزار روپے کھڑے کھڑے خرچ ہو گئے‘ ماہر امراض چھاتی نے معائنہ فیس کی مد میں وصول کئے ڈھائی ہزار روپے کی رسید نہیں دی۔ میڈیسن سٹور والے نے کلکیولیٹر پر جمع منفی کر کے دس ہزار سات سو روپے مانگ لئے۔ جب رعایت کا کہا توسات سو روپے منہا کر دیئے۔ رسید مانگی تو کارڈ کے پیچھے صرف رقم لکھ دی اور دوائی کا شاپنگ بیگ اُس وقت تک اپنے پاو¿ں میں رکھا جب تک پوری رقم گن نہیں لی۔ سفید پوش متوسط طبقات اِس پوری صورتحال میں اُن غریبوں سے جا ملے ہیں‘ جن کا علاج معالجے‘ صاف خوراک‘ معیاری تعلیم‘ عزت و انصاف اور حتیٰ کہ زندگی پر بھی حق نہیں رہا۔ ”زندگی کی راحتیں ملتی نہیں‘ ملتی نہیں .... زندگی کا زہر پی کر جستجو میں گھومیے (مجید اَمجد)۔“