خیبرپختونخوا کے جن اضلاع میں (سرکاری اعدادوشمار کے مطابق) ’کورونا وبا‘ نسبتاً زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے اُن میں پشاور‘ چارسدہ‘ مردان‘ نوشہرہ اور سوات شامل ہیں تاہم وبا کے پھیلنے اور علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور دیگر سبھی اضلاع جہاں کورونا وبا کے مریضوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے لیکن ہر ضلع میں علاج معالجے کی سہولیات موجودہ (مبینہ) تیسری لہر سے پہلے جیسی ہی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کورونا وبا کی موجودگی کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد بھی خصوصی نیا ہسپتال یا فیلڈ ہسپتال حسب اعلان نہیں بنائے گئے جبکہ گشتی علاج گاہوں کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے اور جن اضلاع سے کورونا مریضوں کی تعداد سامنے نہیں آ رہی اُس کی بنیادی وجہ ٹیسٹنگ سہولیات کا نہ ہونا اور مریضوں کو شناخت کرنے میں جان بوجھ کر کوتاہی برتنا ہے تاکہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر دیگر صوبوں اور وفاق کی طرف سے اعتراضات سامنے نہ آئیں۔ اِس پورے منظرنامے کو دیکھتے ہوئے حکومتی حکمت عملی 2 طریقوں سے وضع کی گئی ہے۔ ایک سیاسی اور دوسری طبی ضروریات و سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور خاص بات یہ بھی ہے کہ اِن دونوں حکمت عملیوںکا معیار انتہائی ناقص (غیرتسلی بخش) ہے۔پشاور میں کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافے سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے دیگر اضلاع کی علاج گاہوں کو بستر خالی رکھنے کےلئے محکمہ¿ صحت نے مراسلے ارسال کئے ہیں‘ جن پر فوری عمل درآمد کرتے ہوئے مریضوں کو علاج کے دوران ہسپتالوں سے فارغ کیا جا رہا ہے اور اُنہیں باقی ماندہ علاج گھر پر الگ تھلگ (قرنطین) رہتے ہوئے کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اِس پورے ہنگامی منظرنامے میں صوبائی حکومت کی ترجیح پشاور ہے جہاں قومی ذرائع ابلاغ کی نظریں بھی مرکوز ہیں جبکہ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں الیکٹرانک میڈیا کے صدر دفاتر سے پشاور کے علاوہ خیبرپختونخوا کے کسی دوسرے ضلع کی صورتحال کا جائزہ نشر نہیں ہو رہا اور جن اضلاع سے علاقائی اخبارات شائع ہوتے بھی ہیں تو وہاں کی علاج گاہوں سے متعلق صرف اُنہی اعدادوشمار کی اشاعت پر اکتفا ہو رہا ہے‘ جو ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے معمول کے مطابق جاری ہوتے ہیں اور اِن کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کروائی جاتی جو صحافت کا بنیادی اصول ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک طرف معالجین اپنی اخلاقی و پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو محض ملازمتی فائدے کےلئے خاطرخواہ ایمانداری سے ادا نہیں کر رہے تو دوسری طرف صحافتی پیشہ ور بھی تصویر کا وہ رخ پیش نہیں کر رہے جس سے عام آدمی بطور مریض شدید متاثر ہے اور اِس پوری صورتحال سے نجی علاج گاہیں بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ مختلف اقسام کے ٹیسٹوں کی قیمتوں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گنا اضافہ اور ادویات کی بلیک مارکیٹنگ سے متعلق عام شکایات کو رپورٹ کون کرے گا اور اِن کا نوٹس کون لے گا‘ یہ ایسے سوالات اور جرائم ہیں جن کے فیصلے اور سزاو¿ں کا تعین نہیں ہو رہا۔محکمہ¿ صحت خیبرپختونخوا کے صدر دفتر (پشاور) میں ایک اعلیٰ انتظامی اہلکار سے بذریعہ ٹیلی فون بات چیت اور بذریعہ واٹس ایپ فراہم کردہ دستاویزات کا خلاصہ (نچوڑ) یہ ہے اور تمام تر دعوو¿ں اور خط و کتابت سے اِس اخذ ہوا ہے کہ 1: صوبائی فیصلہ ساز ’کورونا احتیاطی تدابیر (SOPs)‘ پر عمل درآمد کی صورتحال سے پریشان ہیں۔ 2: محکمہ¿ صحت چاہتا ہے کہ شہر کے اندر‘ باہر اور اضلاع کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ سے استفادہ کرنے والے مسافروں کو لازماً ایس اُو پیز پر عمل درآمد کروایا جائے۔ 3: بس اڈوں اور مقررہ سٹاپس سے سوار ہونے اور اُترنے کے علاوہ مسافروں کے اُترنے کے قواعد پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ 4: تعلیمی اداروں کےلئے استعمال ہونے والی پبلک ٹرانسپورٹ کو عام ٹرانسپورٹ سے الگ کیا جائے اور صرف اُنہی نجی تعلیمی اداروں کو خدمات فراہم کرنے کی اجازت دی جائے جو اپنی ذمہ داری پر طلبہ کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کا بندوبست کریں۔ 5: پبلک ٹرانسپورٹ میں کورونا قواعد کی خلاف ورزیوں سے متعلق عوامی شکایات درج کروانے کا نظام وضع کیا جائے۔ 6: ضلعی انتظامیہ (کمشنر‘ ڈپٹی کمشنروں) اور ٹریفک پولیس کے درمیان روابط کو مربوط کیا جائے اور 7: ڈائیورز اور بس کے ساتھ سفر کرنے والے دیگر معاون عملے کےلئے کورونا ٹیسٹ لازم قرار دیا جائے لیکن یہ اور اِس قسم کے درجنوں دیگر اقدامات و تجاویز ایک سرکاری دفتر سے دوسرے سرکاری دفتر کے درمیان خط و کتابت سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے اور کورونا سے بے احتیاطی (قواعد کی خلاف ورزی) اِس قدر بڑے پیمانے پر عام ہے کہ حکومتی ادارے خود کو بے بس محسوس کرتے ہوئے سارے کا سارا غوروخوض صرف اور صرف خط و کتابت پر خرچ کر رہے ہیں جبکہ زمینی صورتحال صرف سنجیدہ نہیں بلکہ نہایت ہی سنجیدہ عملی اقدامات کی متقاضی ہے۔