شاعرانقلاب حبیب جالب مرحوم نے کہاتھا کہ
چین اپنایار ہے اس پہ جاں نثار ہے
پروہاں ہے جو نظام‘ اس کو دورسے سلام
گویا ان کے نزدیک ہمارے پالیسی سازوں کے مطابق چین اگرچہ ہمارا بہت قریبی دوست ہے مگر وہاں جو نظام ہے اس کو ہماری طرف سے دورسے سلام ہے کیونکہ چینی نظام کے نفاذ کی صورت میں مٹھی بھرجاگیرداروں اورسرمایہ داروں کی شامت آسکتی ہے جو اس وقت پورے نظام معیشت کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں اور ملک کے کروڑوں افراد ان کے شکنجہ میں پھنس کر خط غربت سے انتہائی نیچے نامساعد ترین حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں چین کے موجودہ حکمرانوں نے مختصر عرصے کے دوران اپنے ملک سے غربت کے خاتمے کویقینی بناکر دکھایاہے وزیر اعظم عمران خان غربت ختم کرنے پر متعدد بار چین کی تعریف کرچکے ہیں دنیا کا سب سے زیادہ آبادی کا حامل ملک ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ملک کادرجہ حاصل کرنا اور غربت کا خاتمہ چین کا تاریخی کارنامہ ہے غربت پاکستان کا ایک بہت بڑا سماجی اور معاشی مسئلہ ہے پاکستان اس سلسلے میں چین سے بہت کچھ سیکھ سکتاہے تخفیف غربت کےلئے پہلی شرط معاشی ترقی ہے نظام سرمایہ دارانہ ہویا سوشلسٹ طویل عرصے تک پائیدار معاشی ترقی ہی آبادی کو غربت سے نکالنے کی کلید ہے پچھلی چار دہائیوں میں چین کی معاشی ترقی کی رفتار کسی بھی ملک سے زیادہ اور اوسطاً 9.4 فیصد رہی ہے اس کے نتیجہ میں چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا اور چند ہی برسوں میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر سب سے بڑی معاشی طاقت بن جائیگا چین میں اوسطاً فی کس آمدن بھی بڑھتی رہی ہے دوسری جانب پاکستان کی معاشی شرح نمومسلسل زوال کا شکار ہے۔1960ءکی دہائی میں اوسطاً شرح نمو 6.8 فیصد تھی جو آنے والے عشروں میں بالترتیب 4.8 فیصد ، 6.5 فیصد ،4.7 فیصد اور 3.9 فیصد رہی جی ڈی پی بھی 1960ءکے عشرے میں 4.1 فیصد سے گرتے گرتے گزشتہ عشرے میں 1.8 فیصد تک آگئی پاکستان میں تخفیف غربت کےلئے بامعنی حکمت عملی کا فقدان رہاہے غربت کے خاتمے کو انکم سپورٹ سے جوڑ دیا جاتا ہے کوئی بھی ملک غریب یا کم آمدنی والے طبقے کو نقد امداد کی فراہمی کے ذریعے غربت کا خاتمہ نہیں کرسکتا بلکہ اس اقدام سے غربت کو فروغ ملتا ہے اسی سے لوگ نقد امداد پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ غربت میں کمی صرف لوگوں کو زیادہ سے زیادہ پیداواری بناکر اور اشیاءوخدمات کے تبادلے میں ان کی شرح بڑھاکرہی ممکن ہے انکم سپورٹ صرف عارضی بے روزگاروں، معذوروںوغیرہ کو دی جانی چاہئے۔ کسی ملک میں سیاسی استحکام معاشی استحکام کی ضمانت بنتا ہے۔ ماہرین بالکل بجاکہتے ہیں کہ اگر حکومت انکم سپورٹ کی بجائے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ پیداواری بنائے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے تو اس سے ملک میں غربت میں کمی آسکتی ہے انکم سپورٹ پروگرام کو معذوروں یا عارضی بے روزگاروں تک محدود کرے ، یہ اصول چین کے علاوہ دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی رائج ہے۔حکمران جماعت اور اپوزیشن اپنے سیاسی اختلافات ختم کرکے ملک وقوم کے وسیع تر مفاد کےلئے مل بیٹھیں اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں تو ان دونوں کا یہ اقدام ملکی سیاسی استحکام کا باعث بن سکتا ہے حکومت ہے کہ اپوزیشن ،دونوں کو عوام نے ہی ووٹ دیکر منتخب کیا ہے اس لئے ملک میں سیاسی استحکام لانا دونوں فریقوں کی ذمہ داری بنتی ہے جس ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو وہ ملک ترقی سے کوسوں دور ہوتا ہے، ہمارے ملک کا سب سے اہم اور سلگتا ہوا مسئلہ غربت کا ہے غربت کے خاتمے کےلئے حکمران جماعت اور اپوزیشن کا ایک پلیٹ فارم پر آنا از بس ضروری ہے ۔ اگرایسا نہیں ہوتا تو پھر غربت میں مزید اضافہ ہوتا جائیگا ۔ اور وطن عزیز میں ایسا ہوتا آیا ہے ۔ ہم حکمرانوں اور اپوزیشن سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ ملک سے غربت کے خاتمے کےلئے باہمی مشاورت سے ایک ٹھوس حکمت عملی مرتب کریں تاکہ ملک سے غربت کی لعنت ختم ہوسکے غربت کے خاتمے کےلئے نمائشی اقدامات سے کہیں زیادہ ضرورت عملی اوردیرپا اقدامات کی ہے عام لوگوں کوروزگار فراہمی کے غیر روایتی طریقوں کی طرف لایاجاسکتاہے اس سلسلہ میں زراعت ،لائیو سٹاک ،فشریز ،مگس بانی ،دستکاری ،پھولوں کی تجارت ،آن لائن کاروبار ،چھوٹے پیمانے کے منصوبے اہم کردار اد اکرسکتے ہیں چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعہ اس حوالہ سے بڑے بڑے خواب شرمندہ تعبیر کیے جاسکتے ہیں حکومت اگرانکم سپورٹ پروگرام کادائرہ کار محدود کرکے باقی رقم بیروزگاروں کو مستقل طورپر اپنے پیروں پرکھڑاکرنے کےلئے استعمال میں لائے تو یقینا بہت بہتر نتائج سامنے آسکیں گے گویا انکم سپورٹ سے زیادہ زور سمال اینڈ ہوم بزنس سپورٹ پر دیا جائے تو حالات تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں فی الوقت چینی ماڈل سے ہی استفاد ہ کیاجاسکتاہے مگر جیساکہ شروع میں کہاگیاکہ چین کے ساتھ دوستی کے دعوے توفخر کے ساتھ کیے جاتے ہیں مگر چینی سسٹم سے استفادے کی جرات نہیں کی جاتی اوریہی ہمارا اصل المیہ ہے ۔