پشاور کہانی: اُچاٹ دل۔۔۔۔

زندگی کچھ اِس انداز سے ’رواں دواں‘ رکھنا ضروری ہے کہ اِس میں کوئی ایک وجود دوسرے کے لئے بقا کےلئے خطرہ اور کوئی ایک سہولت کسی ایک طبقے کےلئے مخصوص نہ رہے بلکہ سہولیات کی مقدار اور اُن کا معیار برقرار رہے اور یہیں سے ”شہری منصوبہ بندی“ کی وہ ضرورت پیش آتی ہے‘ جس کی بنیاد پر پشاور کے رقبے اور آبادی سے سینکڑوں گنا بڑے شہروں کو مثالی شکل و صورت میں رکھا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ’شہری منصوبہ بندی‘ کےلئے ایک سے زیادہ اور زیادہ سے زیادہ سرکاری محکمے بنانے کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے تو اداروں کو مربوط اور عوامی مشاورت کو شامل حال کرنے کے بارے میں موجود لائحہ عمل کو بھی موقع دینا چاہئے۔ جس ایک پہلو پر صوبائی فیصلہ سازوں کو ’حد سے زیادہ غور‘ کرنا ہو گا وہ یہ ہے کہ ”رواں دواں ہے زندگی چراغ کے بغیر بھی .... ہے میرے گھر میں روشنی چراغ کے بغیر بھی۔“ شاعر اختر سعیدی کے اِس شعر میں ”چراغ“ وہ استعارہ ہے‘ جس سے فہم و دانش کی روشنی لی جاتی ہے۔ جس کی روشنی سے چراغ تلے اندھیرے ہی کو نہیں بلکہ چراغ کے اردگرد اُور گردوپیش میں اندھیروں سے نمٹا جاتا ہے۔ اُمید ہے کہ ’پشاور کے چراغ سے روشنی چاروں سمت پھیلے گی اور اِسے کسی ایک زاویئے سے محدود نہیں دیکھا جائے گا۔‘ صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت ”کانٹوں پہ مثل قیس رواں دواں“ دکھائی دے رہی ہے کہ اِس کےلئے ”لیلائے جاں ہے جسم کی محمل سے دل اُچاٹ“ یعنی بہتری کی حکمت عملیوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ ساز ’اکتاہٹ کا شکار‘ دکھائی دینے لگے ہیںگویا دل اُچاٹ ہیں اور اب صرف ”وقت گزاری“ ہو رہی ہے جو مسئلے کا حل نہیں! پشاور کی بڑھتی ہوئی آبادی اور دستیاب وسائل (بنیادی سہولیات جیسا کہ پینے کا پانی‘ نکاسی¿ آب‘ کوڑا کرکٹ‘ علاج معالجے‘ تعلیم‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دھاک‘ حکمرانی‘ ٹریفک نظام اور تفریح کے صحت مند مواقعوں) پر بوجھ بدستور موجود ہے جبکہ شہر کے اندر اور مضافاتی علاقوں میں صنعتی سرگرمیوں کا منفی اثر پشاور کے ماحول (فضا اور آب و ہوا) پر مرتب ہو رہا ہے۔ ورسک روڈ کی مثال لیں جہاں ’ماربل (پتھر)‘ کے کارخانے قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ آبادی اور صنعتیں پھیلتے ہوئے ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو گئیں۔ حل یہ نکالا گیا کہ ”مہمند ماربل سٹی“ کے نام سے 20 کلومیٹر دور (مہمند قبائلی ضلع کی حدود میں) ایک نئی صنعتی بستی بنائی گئی جس پر 3 کروڑ روپے خرچ کئے گئے اور ورسک روڈ سے صنعتوں پر ’مہمند ماربل سٹی‘ منتقل کرنے کے لئے دباو¿ ڈالا گیا۔ چند رضامندی سے ازخود منتقل ہو گئیں اور ایک بڑی تعداد مزاحمت کر رہی ہے جس کی 2 وجوہات ہیں۔ نمبر ایک مہمند قبائلی علاقے میں امن و امان کی صورتحال ضلع پشاور جیسی مثالی نہیں اور وہ گاہگ (ماربل کے خریدار) جو دیگر صوبوں بالخصوص پنجاب سے پشاور آتے تھے کبھی بھی مہمند قبائلی علاقے ضلع کا سفر کرنا پسند نہیں کریں گے۔ دوسرا اعتراض سہولیات کی کمی اور فقدان پر ہے۔ ماربل پتھر کے نمائش گھر (شو رومز) ضلع پشاور میں قائم کرکے نئے کاروباری امکانات متعارف کروائے جا سکتے ہیں جس سے صرف ’مہمند ماربل سٹی‘ ہی نہیں بلکہ ضلع پشاور کے صنعتی بستی حیات آباد و دیگر علاقوں میں قائم ماربل اور سرامک ٹائیلز کی صنعتیں فائدہ اُٹھا سکتی ہیں لیکن ایسا کرنے کے لئے جس منظم و مربوط حکمت ِعملی کی ضرورت ہے اُس میں حکومت اور صنعتکار دونوں ہی دلچسپی نہیں لے رہے۔ ایک تیسرا فریق سرمایہ کاری کے ذریعے حکومت اور ماربل و سرامک ٹائیلز کی صنعت کے کاروبار کو سہارا دے سکتا ہے لیکن ایسے نجی سرمایہ کاری کے اب تک کے تجربات زیادہ کامیاب اِس لئے بھی ثابت نہیں ہوئے کیونکہ صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیمیں اپنے کاروباری اور ٹیکس و اخراجات (لاگت) سے جڑے معاملات کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے اور یہی المیہ ہے کہ صرف پشاور ہی نہیں بلکہ پاکستان میں کسی کاروبار کی کامیاب حکمت عملی اُسے ہی تصور کیا جاتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ رازداری کا غلبہ ہو۔تصور کریں کہ باجوڑ اور خیبر کے قبائلی (نئے ضم شدہ) اضلاع کے درمیان ’ضلع مہمند‘ پہلے ہی سے ماربل کی صنعت کےلئے انتہائی موزوں علاقہ رہا ہے لیکن وہاں امن و امان کی وجہ سے یہ کاروبار رفتہ رفتہ ضلع پشاور کی حدود میں داخل ہوا اور ورسک روڈ پر دیکھتے ہی دیکھتے پھیلتا چلا گیا جہاں ایک طرف نجی تعلیمی ادارے‘ دوسری طرف بے ہنگم رہائشی کالونیاں اور اِن کے درمیان ماربل کی صنعتوں سے عجیب و غریب منظرنامہ تشکیل پایا۔ خود حکومتی اعدادوشمار اور جائزہ رپورٹوں میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ مہمند ایجنسی میں ساڑھے 84 کروڑ ٹن سے زائد کا انتہائی اچھی قسم کا ’ماربل پتھر‘ کے پہاڑی سلسلے موجود ہیں جبکہ یہ اِس کے علاوہ نسبتاً کم معیار کا ماربل پتھر بھی موجود ہے لیکن اِسے حاصل کرنے کا غیرسائنسی طریقہ (بارودی مواد) بروئے کار لانے سے پتھر ایک خاص تناسب سے زیادہ ضائع ہو جاتا ہے۔ مہمند قبائلی ضلع سے نکلنے والے پتھر میں ’سپر وائٹ‘ گرے اور سلکی (silky)‘ کی مانگ پورے ملک میں ہے اور یہی وجہ تھی کہ ’فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ نے سال 2008ءمیں ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے ’مہمند ماربل سٹی‘ میں بجلی و دیگر ضروریات کی فراہمی کے لئے انتظامات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن چونکہ تب مہمند ایجنسی (وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے) میں عسکریت پسندی عروج پر تھی اِس لئے خاطرخواہ تیزی سے ترقیاتی کام مکمل نہ ہو سکے تاہم قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد ’صوبائی صنعتی ترقی‘ کے محکمے نے ’مہمند ماربل سٹی‘ منصوبے پر توجہ دی اور اِسے ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ کا حصہ بنا دیا گیا ہے جس سے اُمید ہے کہ ایک نئی صنعتی بستی اور ایک روایتی کاروبار جس کےلئے خام مال کی کوئی کمی نہیں اور اِس ترقیاتی امکان سے نہ صرف قبائلی ضلع میں معاشی بہتری آئے گی بلکہ پشاور کی کاروباری زندگی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ سی پیک محض پاکستان کی ترقی کا منصوبہ نہیں بلکہ یہ پورے خطے کے لئے معاشی خوشحالی کا منصوبہ ہے خا ص کر ضم شدہ قبائلی علاقہ جات میں پسماندگی میں جو ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور یہاں کے مکین جن مسائل و مشکلات کا شکار تھے اس کا خاتمہ سی پیک اور اس سے جڑے منصوبوں کے ذریعے ممکن ہے‘ اور علاقے میں موجود وسائل اور افرادی قوت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ ہر مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے اور بات جب معاشی ترقی کی ہو تو قدرت نے یہاں پر ایسے حالات پہلے سے ترتیب دیئے ہیں کہ جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی و خوشحالی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سب تبھی اور عملاً ممکن ہوگا جبکہ ”اُچاٹ دل“ پشاور کے مسائل اور اِس کے اردگرد موجود وسائل (حل) کو توجہ اور ترقی دیں۔ ”رواں دواں نئی تہذیب کا سفر رکھو .... مگر نگاہ کو منزل سے باخبر رکھو (ملکہ نسیم)۔“