جنوبی وزیرستان سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی نصیر اللہ خان وزیر نے قبائلی اصلاحی تحریک کا آغاز کر دیاہے۔ اراضی تنازعات، پولیس، عدالتی، تعلیمی اور صحت اصلاحات کے حق میں پورے صوبے کے دورے مکمل کرکے 30 مارچ کوپشاور میں وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنا دیں گے اپنی تحریک کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو میں رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ فاٹا انضمام کے بعد بھی قبائلی عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جس کے ذمہ دار انضمام کمیٹی کے سربراہ سرتاج عزیز ہیں جنہوں نے قبائلی عوام کے مسائل و ضروریات کو ریکارڈ نہیں کیا ہماری تحریک کا مقصد قبائلی اضلاع میں اراضی کے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا ہے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جنوبی وزیرستان میں زلی خیل اور دوتانی قبائل کے درمیان لڑائی ختم کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں پولیس نظام کو فعال اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنایاجائے۔ فاٹا انضمام کے وقت حکومت نے خاصہ دارا ور لیویز فورس کو خیبر پختونخوا پولیس کے برابر مراعات دینے کا وعدہ کیا تھا اب وہ وعدہ پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔اصلاحی تحریک کے بانی کا کہنا ہے کہ ان ساری ناکامیوں کی ذمہ داری تحریک انصاف حکومت پر ڈالنا مناسب نہیں۔ اپنی حکومت کا دفاع کرنے کے ساتھ میں اپنی قوم کے جائز مطالبات حکام بالا تک پہنچا نا چاہتا ہوں۔ قبائلی عوام مروجہ عدالتی نظام کی بحالی،جرگہ سسٹم اور اس کے تمام فیصلوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ تمام قبائلی اضلاع سے جرگہ ممبر منتخب کرکے وزیر اعلیٰ،گورنراور کورکمانڈر کیساتھ بڑا جرگہ منعقد کریں گے۔عمومی تاثر یہ ہے کہ حکومت احتجاج اور جلسے جلوس منعقد کئے بغیر مسائل کے حل پر توجہ نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے ملک بھر میں روزانہ احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، جلسے، جلوس اور دھرنے ہوتے رہے ہیں۔ کبھی ڈاکٹر، نرسیں، پیرا میڈیکل سٹاف سڑکوں پر نعرے لگاتے نظر آتے ہیں تو کبھی اساتذہ، پٹواری، کسان، دکاندار،ریڑھی بان شاہراہوں پر نظر آتے ہیں۔ قبائلی ایم پی اے نے احتجاج کا جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ سڑکوں پر نکل کر شورشرابہ کرنے، امن وامان کا مسئلہ پیدا کرنے، ٹریفک بلاک کرکے عوام کو پریشانی میں مبتلا کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے سے کہیں زیادہ مہذب طریقہ ہے۔ ایسے پرامن اور شائستہ احتجاج پر حکومت کو فوری توجہ دینی چاہئے تاکہ اپنے حقوق کے لئے دوسرے لوگ بھی احتجاج کا یہی انداز اپنائیں۔ پرامن اصلاحی تحریک سے مسائل بھی اجاگر ہوں گے امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوگا جانوں اور املاک کے نقصان کا بھی کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع کو ترقی کے قومی دھارے میں شامل کرنے کے اعلانات تو کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں بڑے ترقیاتی منصوبے بھی شروع کئے گئے ہیں تاہم ستر سالوں کی محرومیوں کا چند سالوں کے اندر خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ کورونا وباء کی وجہ سے عالمی سطح پر معاشی بحران، مہنگائی، بے روزگاری اور تجارتی پابندیوں کے منفی اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں یہی وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی ترقی اور وہاں کے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے منصوبوں کے لئے وسائل کی کمی آڑے آرہی ہے۔تاہم اداروں میں اصلاحات، قبائلی علاقوں میں صوبائی محکموں کے قیام اور پہلے سے موجود محکموں کی تطہیر اور انہیں فعال بنانے کیلئے زیادہ وسائل کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ قبائلی عوام کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جنہیں حل کرنے کے لئے کروڑوں روپے کا فنڈ درکار نہیں۔ صرف حکومت اور سرکاری اداروں کی توجہ درکار ہوتی ہے۔ اصلاحی تحریک کے ذریعے ایسے مسائل کی ترجیحی بنیادوں پر نشاندہی ہونی چاہئے جو احکامات اور اقدامات کے ذریعے حل کئے جاسکتے ہیں۔