خبر یہ ہے کہ پشاور کے اندرونی رہائشی و تجارتی مراکز کی رونقیں بحال کرنے کے لئے تجاوزات کے خلاف ’ضلعی (ٹاؤن ون) انتظامیہ کی کاروائیاں جاری ہیں۔ خبر یہ ہے کہ اندرون پشاور تجاوزات کے خلاف جاری اِن کاروائیوں کا مرکز ان گنجان آبادیوں کو بنایا گیا ہے جہاں سرکاری اراضی نجی اثاثوں میں تبدیل کی گئی ہے۔ خبر یہ ہے کہ ’ٹاؤن ون انتظامیہ‘ نے پشاور پولیس کے نام ایک تحریری درخواست میں قانون کی مدد طلب کی ہے تاکہ اندرون شہر یونین کونسل گنج‘ یونین کونسل کریم پورہ اور یونین کونسل لاہوری کے سنگم پر واقع علاقے میں قائم پختہ تجاوزات ختم کی جائیں جنہوں نے نکاسیئ آب کے شاہی کھٹے سے جڑے نظام کو بھی مفلوج کر رکھا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے زیادہ تجاوزات ’گورگٹھڑی‘ کے جنوبی حصے (سیّد ضیا ء جعفری روڈ) پر کوچہ بی بی ذکری سے مسجد خواجہ معروف تک پھیلی ہوئی ہیں جس کے بارے میں وزیراعظم پاکستان کے دفتر کو بھی کم سے کم 2 شکایات ’آن دی ریکارڈ‘ اور ’سوشل میڈیا‘ پر گزشتہ کئی ماہ سے زیربحث ہیں‘خبر یہ ہے کہ گورگٹھڑی کے علاقے میں ’صدیوں پرانی‘ ایک ایسی یادگار بھی قبضہ کر لی گئی ہے جو مال مویشیوں کے لئے پینے کا پانی فراہم کرنے کا واحد ذریعہ تھی۔ مقامی ہندکو اور پشتو زبان میں بھی ’ڈکی‘ یعنی پانی ذخیرہ رکھنے کی جگہ (ڈھکی) اور اِس کے آس پاس قریب 20 مرلے اراضی دیکھتے دیکھتے قبضہ ہوئی جبکہ اِس ڈھکی کی تین نسلوں سے نگرانی‘ خدمت اور اِسے بحال رکھنے والے ’تیلی خاندان‘ کا آخری سپوت ’لالہ انور تیلی‘ کی وفات کے بعد اُس کا گھر اور گھر کے سامنے بنی ہوئی ڈھگی و تیل کی گھانی بمعہ پارکنگ و پیپل کے درخت قبضہ کر لی گئی۔ یہ ایک انتہائی سایہ دار اور صاف ستھری جگہ ہوا کرتی تھی جہاں پیپل کے اُسی درخت کی ایک شاخ لگی ہوئی تھی جو ہندو مذہب کے روحانی پیشوا بدھا کے عبادت گھر (سٹوپا) سے منسوب ہے اور اِسے بطور خاص پشاور لایا گیا۔ اِس درخت کی شاخیں پنج تیرتھ‘ پیپل منڈی‘ گورگٹھڑی اور سیّد ضیا ء جعفری روڈ کے جنوبی و شمالی حصوں میں چاردیواری کے اندر اور باہر ایک خاص نظم و ضبط سے لگائی گئیں اور ایک عرصے تک اِس پورے علاقے کی پہچان یہاں کے یہی درخت اور چہچہاتے پرندوں کے جھنڈ ہوا کرتے تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد جب ’بنیادی جمہوریت اور اُس کے بعد تہہ در تہہ بلدیاتی نظام متعارف ہوا تو یہیں سے پشاور کا زوال شروع ہوا‘ جو اِس انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ آج پشاور شہر میں خدمات و سہولیات سے متعلق کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری دفتر سے رجوع کریں تو ایسے لوگوں کے جھنڈ سے واسطہ پڑتا ہے جن کے لئے پشاور ملازمتی مواقع ہے۔ تجاوزات مافیا نے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی گورگٹھڑی کے جنوبی علاقے میں اربوں روپے کی سرکاری جائیداد پر قبضہ کر رکھا ہے اور یہ سب کچھ یونین کونسل گنج دفتر کے بالکل سامنے دیکھا جا سکتا ہے۔ پشاور میں ’تجاوزات‘ کے خلاف کاروائی خبر سے زیادہ مذاق بن چکی ہے اور یہ پشاور کا ایک انتہائی ’سنجیدہ و بنیادی بلکہ بحرانی مسئلہ‘ ہے لیکن حالیہ چند برسوں میں جس انداز میں تاریخی‘ ثقافتی اَثاثے اور آثار ِقدیمہ تجاوزات کے باعث ”آخری ہچکیاں“ لے رہے ہیں وہ کسی بھی طرح جنوب مشرق ایشیا ء کے اِس قدیم ترین‘ زندہ و تاریخی شہر کے شایان ِشان نہیں۔ تجاوزات آخر قائم کیسے ہوتی ہیں؟ قانون شکن کس طرح سرکاری اراضی قبضہ کر لیتے ہیں؟