کہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے دوران ایک اہم مذہبی سیاسی جماعت کے ایک مرکزی رہنما کے ساتھ ان کی طویل نشست ہوئی جس میں بہت سے معاملات پر سیر حاصل گفتگوہوئی جنرل پرویز مشرف ان سے کافی متاثر ہوئے اور کسی شہنشاہ کی طرح فرمایا کہ مانگیں کیا مانگتے ہیں جنرل کا خیال تھاکہ وہ صاحب شاید کسی تگڑی رقم کاتقاضا کریں گے لیکن وہ بھی گھاٹ گھاٹ کاپانی پیئے ہوئے تھے انہوں نے آمر وقت کے سامنے واضح طورپر کہاکہ مجھے ایسی چیز دیں جو بہت قیمتی توہو مگردکھائی نہ دے جنرل صاحب بھی مخمصے میں پڑ گئے اور دریافت کیاکہ ایسی قیمتی چیز بھی کوئی ہے جو دکھائی بھی نہ دے اس پر مذکورہ رہنما کا کہنا تھاکہ بالکل ہے پرویز مشرف فوراً تیار ہوگئے جس پر رہنما بولے کہ مجھے چند ممالک میں سفراء کاتحفہ دیں یوں وہ صاحب جاتے جاتے تین سفیروں کی تعیناتی کی یقین دہانی لے کرنکلے اوربعدازاں ان کی سفارش پرتین مختلف ممالک میں پاکستانی سفیر تعینات کئے گئے جنہوں نے پھر بھرپور طریقے سے اپنی میعاد پوری کی اورخیر سے پھر لوٹ بھی آئے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی کہ پرویز مشرف نے ان صاحب کو اتنا قیمتی ”تحفہ“دیاہواتھا یہ واقعہ بیان کرنے کامقصد صرف یہ بتاناہے کہ ہمارے حکمران بیرون ملک اپنے سفیر وں کی تعیناتی میں کس قدر”سنجیدگی“کامظاہرہ کرتے ہیں اسی طرح جب ذوالفقار علی بھٹونے ”حکم عدولی“ سے ناراض ہوکر اس وقت کے آرمی چیف جنرل گل حسن اور ائیر چیف ائیر مارشل رحیم خان کو انتہائی پراسراراور نامناسب انداز میں ان کے عہدوں سے فارغ کیاتودونوں کو راتوں رات بطورسزا بیرون ملک سفیر تعینات کرکے بھجوادیا یہ ہے ہمارے ہاں سفیروں کی تعیناتی کامعیار جس کے بعد بیرون ملک پاکستانی مفادات کاجو حشر نشر ہوتا چلا آ رہاہے وہ سب کے سامنے ہے سارے حکمرانوں نے سفیروں کی تعیناتی کیلئے مذکورہ بالادو اصول ہی اختیار کئے رکھے ہیں بہت کم ایسا ہواکہ کسی کو میرٹ پر سفیر لگایا گیاہواسی لئے تو پھرسفارتخانے کی پوری کی پوری عمارت بیچ دی جاتی ہے اور سالوں ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی چند ہفتے قبل ایک خبر میں بتایا گیاکہ وزیر اعظم عمران خان نے وزارت خارجہ سے بیرون ممالک تعینات پاکستانی سفیروں کی کارکردگی رپورٹ 20 دن میں طلب کرلی ہے‘میڈیا رپورٹ میں ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ تمام سفیروں کے لئے فریم ورک تیار کر لیا گیا ہے جسے وزارت خارجہ کو ارسال کیا گیا ہے فریم ورک کے تحت کام نہ کرنے والے سفیروں کو تبدیل کردیا جائے گا‘فریم ورک کے تحت ہر سفیر کی 20 دن بعد رپورٹ وزیر اعظم کو ارسال کی جائے گی‘ بارہا بیرون ممالک پاکستانی سفیروں کے بارے میں لکھا جاتارہاہے کہ اکثر سفیروں کی بیرون ممالک تعیناتی ان کے سیاسی آقاؤں سے وفاداری کی بنیاد پر کی جاتی ہے ان سفیروں میں ایسے سفیر بھی ہیں جو وہاں پاکستانی کمیونٹی سے ملتے تک نہیں نہ ہی انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے وہاں کی حکومتوں یا وہاں کے عوام کو اس کی سنگینی سے آگاہ کیا ہے اسے ہماری بدنصیبی ہی سمجھئے کہ ہمارے مقابلہ میں بھارتی سفیروں کی کارکردگی انتہائی بہتر ہے اور انہوں نے ظالم بھارت کو بھی مظلوم ثابت کیا ہے‘سفیر کا عہدہ کوئی معمولی عہدہ نہیں ہے یہ جن ممالک میں تعینات ہوتے ہیں وہاں پاکستان کی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں، پاکستان کی تجارت کی بڑھوتری ان کی ذمہ داری ہے پاکستان کے امیج کو اجاگر کرنا ہے، پاکستان کی تہذیب وتمدن کو اجاگر کرنا ہے پاکستان کمیونٹی کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے بد قسمتی سے ہم نے سفیروں کی تعیناتی کو بھی سیاست کی نذر کیا ہے جس کاسارا ملبہ پھرنہ صرف ہماری خارجہ پالیسی بلکہ سمندر پارپاکستانی برادری پر بھی گرتارہتاہے دنیا بھر کے سفارتخانے مذکورہ ممالک میں رہنے والے وہاں کے باشندوں کے مفادات کی نگہبانی کاکردار بخوبی اداکر تے ہیں وہ ان ممالک میں اپنے مادروطن کے حقیقی نمائندگی کاحق ادا کرتے ہیں اسی لئے پھران ممالک کی خارجہ محاذ پر کامیابیاں بھی مثالی ہوتی ہیں مگر ہمارے ہاں تو معاملہ ہی کچھ اورہے اب اگر پہلی بار سفراء کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کافیصلہ کیاگیاہے تو یقینا یہ تاخیر سے ہی مگر مناسب ترین اقدام ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ سفیروں کی تعیناتی میں بھی اب سفارش،دوستی اور سیاسی وفاداریوں کی بنیاد پر نہ ہوں جس کے بعد ہی بہتری کی امید رکھی جاسکتی ہے‘وزیر اعظم عمران خان اگر سفیروں کی تعیناتی میں ان کی تعلیم، تجربہ‘کارکردگی اور اپنے ملک سے وفاداری کے اصولوں کو مد نظر رکھیں تو اس سے ہمارا سفارتی محاذ کافی مضبوط ہوگا، ہمارے ملک کی نیک نامی بھی ہوگی یہ پاکستان کے لئے تجارتی مواقع بھی تلاش کریں گے اور پاکستان مخالف قوتوں کے کرتوتوں سے بھی ان ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو آگاہ کرسکیں گے۔