صوبائی دارالحکومت پشاور سے 5 نہریں گزرتی ہیں‘ جن کا بنیادی مقصد کبھی زرعی (آبپاشی) اور عمومی شہری ضرورت کےلئے استعمال (آبنوشی) ہوا کرتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ صاف و شفاف پانی کے ذخائر سے آنے والی قیمتی جنس دیگر خوبیوں کی طرح آلودہ ہوتی چلی گئی اور وہ نہری نظام جو کبھی ضلع پشاور کی زرعی و شہری زندگی کےلئے ’ریڑھ کی ہڈی‘ جیسی کلیدی حیثیت اختیار کر گیا تھا اپنی معنویت افادیت اور خصوصیات ایک ایک کر کے گنواتا چلا گیا۔ وہ نہری نظام جو کسی وقت یہاں پر صحت و سہولت کے طور پر زندگی کی بنیادی ضروریات پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا اب ہمارے اپنے ہاتھوں صحت کی بجائے بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کیا جائے اور نہری نظام کو قدرت کا تحفہ سمجھتے ہوئے اس کی قدر کی جائے اور اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ صورتحال اِس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ صوبائی اور ضلعی حکومت کے علاوہ اصلاح احوال کےلئے متعلقہ حکومتی محکموں کے غوروخوض‘ وعدوں اور حکمت عملیوں کے باوجود بہتری نہیں آ سکی اور معاملے کی نوعیت اِس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ یہ عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) تک جا پہنچا ہے جہاں رواں ہفتے (پچیس مارچ) چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل بینچ نے صوبائی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ پشاور سے گزرنے والی پانچ نہروں کی صفائی‘ بہتری اور بحالی کےلئے ”فوری طور پر (مزید بنا تاخیر) حکمت عملی“ تیار کرے اور بالخصوص نہروں کے ذریعے پھیلنے والی آلودگی پر قابو پانے کےلئے اقدامات کئے جائیں۔ اگرچہ اِس قسم کا حکم پہلی مرتبہ صادر نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا ہے کہ اگر ’عدالت عالیہ‘ حکم صادر نہ کرتی اور توجہ نہ دلاتی تو صوبائی حکومت‘ محکمہ¿ انہار‘ بلدیاتی انتظامیہ‘ پشاور کا ترقیاتی ادارہ اور تحفظ ماحول کے صوبائی اداروں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی تھی اور یہ سب اندھے تھے کہ اِنہیں پشاور میں آلودگی کا ایک نہایت ہی بنیادی ذریعہ (source) دکھائی نہیں دے رہا جس کی شدت بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور اندرون شہر کے جو علاقے مذکورہ نہری نظام کے کناروں پر آباد ہیں یا اِن سے متصل ہیں وہاں کے رہنے والوں کو سارا سال کس قسم کی مشکلات و پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں۔ علاوہ ازیں اِسی نہری نظام سے پشاور کے مضافاتی علاقوں میں آج بھی آبپاشی ہوتی ہے اور وہ کیمیائی مادوں سے بھرپور زہریلا پانی جو چھوٹی بڑی صنعتوں کے علاوہ گھریلو فضلے سے بھرپور ہوتا ہے براہ راست (بنا تطہیر) کھیتوں کو (آبپاشی کے لئے) فراہم ہو رہا ہے اور اِس سے حاصل ہونے والی سبزی پھل کی پیداوار مضر صحت قرار دی گئی ہے جبکہ ایسے تجزئیات بھی موجود ہیں کہ اِسی نہری نظام کے پانی میں پولیو کے جراثیم بھی پائے گئے ہیں جو قطعی طور پر ناقابل قبول و یقین اِن زمین حالات کا بیان ہیں کہ عوامی صحت (پبلک ہیلتھ) ہو یا ماحولیاتی آلودگی اور صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی سہولت صوبائی حکومت اور ادارے اپنی ذمہ داریاں خاطرخواہ توجہ (حساسیت) سے پوری (سرانجام) نہیں دے رہے اور یہی صورتحال کا سب سے خوفناک پہلو ہے کہ پشاور پر حکمرانی کرنے اور پشاور کی فیصلہ سازی کو ہاتھ میں لینے والوں کو اِس شہر کے حال و مستقبل سے بھی کوئی غرض نہیں جبکہ ماضی (آثار قدیمہ) کی طرف توجہ دلانا تو ایک الگ موضوع ہے جس کا تعلق دل‘ جذبات اور روح کے رشتوں سے ہے۔ بہت کم قارئین کو یہ علم ہوگا کہ ’پشاور ہائی کورٹ‘ کا جو بنچ پشاور کے نہری نظام کی اصلاح سے جڑے امور کی سماعت اور اصلاح کی کوشش کر رہا ہے اُسے ”گرین بنچ (Green Bench)“ بھی کہا جاتا ہے یعنی ”ماحول دوست آئینی حلقہ۔“ اور چونکہ یہ ’گرین بنچ‘ ایک الگ اور خاص مقصد بھی رکھتا ہے اِس لئے کسی مقدمے (معاملے) کی سماعت کرتے ہوئے عمومی عدالتی طرزِعمل سے ایک قدم آگے یا ایک درجے بلند ہو کر صورتحال کا زیادہ باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے اور شک کا فائدہ حکومت یا حکومتی اداروں کو نہیں یا عوام کے مفاد کو دیتا ہے۔ اِسی لئے بنچ کے سامنے پیش کی جانے والی حکومتی دستاویزات (اعدادوشمار کے مجموعے) کو زیادہ قابل بھروسہ نہیں سمجھا جاتا اور اُس پر مختلف زاویوں (پہلوو¿ں) سے سوالات اُٹھائے جاتے ہیں۔ درحقیقت ہمارے محکمے ایسے اعدادوشمار بنانے (تخلیق کرنے) کے ”ماہر“ بن چکے ہیں کہ جن کے مطالعے اور حاصل سے صورتحال کی بنیادی وجہ سمجھ نہ آئے بلکہ معاملہ مزید اُلجھ جائے۔ ایک محکمہ اپنی رپورٹ میں دوسرے محکمے کی کسی غلطی کی نشاندہی کرتا ہے تو اُس کے بارے میں جب عدالت ریکارڈ طلب کرتی ہے تو اِس میں کئی مہینے گزرنے کے بعد کسی تیسرے محکمے کی کارکردگی کا ذکر کر دیا جاتا ہے اور عدالت جب اُس تیسرے محکمے کو طلب کرتی ہے تو اِس عمل میں مزید کئی مہینے گزرنے کے بعد جو ایک بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ پشاور کی فیصلہ سازی پر سب کا اختیار ہے لیکن اِس اختیار کےلئے کسی بھی محکمے کی کارکردگی کا احتساب ممکن نہیں رہا کیونکہ انتظامی عہدوں پر فائز اہلکاروں (افسرشاہی) کے سامنے عوام کے منتخب سیاسی نمائندوں کی عدم توجہی عیاںہو چکی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اِن کی آنکھوں میں کس طرح دھول جھونکنا ہے اسلئے پشاور کی ترقی اور سہولیات کی بات جہاں سے چلی تھی وہیں رکی ہوئی ہے بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ وسائل پر بوجھ کی صورتحال ہر دن خراب ہو رہی ہے اور باوجود عدالتی مداخلت کے بھی اُمید دکھائی نہیں دے رہی کہ اندرون و مضافاتی علاقوں سے گزرنے والے نہری نظام کی اصلاح عملاً ممکن ہو پائے گی۔عدالت عالیہ کے سامنے اب تک پیش ہونے والے حکام میں ’پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے)‘ کی سربراہ اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل شامل ہیں جبکہ صوبائی چیف سیکرٹری بھی پیشی بھگت چکے ہیں اور اِن بلند درجات پر فائز اعلیٰ حکام کی طلبی و پیشی سے مقدمے کی سنگینی اور عدالت کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن سب کے سب جس ایک بات کی یقین دہانی کرواتے ہیں اور سب کی بات گھوم پھر کر جس ایک نکتے پر رُک جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ”ہونا چاہئے“ اور ”ہوگا۔“ بہتری آنی چاہئے۔ بہتر ہوگا لیکن یہ بہتری کب آئے گی اور یہ بہتر کب ہوگا معلوم نہیں۔ ”ساری دنیا کے رنج و غم دے کر .... مسکرانے کی بات کرتے ہو (جاوید قریشی)۔“