ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ آٹا، مرغی کے گوشت، گھی اور کوکنگ آئی کی قیمتوں میں بیس فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے اندر ٹماٹر20فیصد،آٹا25فیصد اورچکن15فیصد مہنگے ہوئے تاہم پیاز،لہسن،آلو،دال مونگ کی قیمتوں میں پانچ فیصد تک کمی آئی۔ حساس قیمتوں کے اعشاریہ کے لحاظ سے گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں مہنگائی کی شرح 15.35 فیصد زیادہ رہی ہے۔ماہانہ17ہزار 732 روپے تک آمدنی رکھنے والے طبقے کیلئے مہنگائی کی شرح میں18.77فیصد،22ہزار 888 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کیلئے مہنگائی کی شرح میں16فیصد، 29 ہزار 517 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کیلئے مہنگائی کی شرح میں14.91فیصد رہی۔ایک ہفتے کے دوران جن 22اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ان میں آٹا، انڈے، ٹماٹر، چینی، دال چنا، چاول اور چکن سمیت دیگر اشیائے ضروریہ شامل ہیں۔مہنگائی کا براہ راست منفی اثر کم آمدنی والے طبقے پر پڑتا ہے۔ پرکشش تنخواہ اور مراعات والے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے بڑے افسروں، تاجروں، کارخانہ داروں، جاگیر داروں اور حکمرانوں کےلئے مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ موجودہ حکومت کو بخوبی احساس ہے کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے مگر اس میں کمی لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ اتوار بازار، جمعہ بازار یا منگل بازار لگانے سے غریب آدمی کو ریلیف نہیں مل سکتا کیونکہ ان سستے بازاروں سے نہ روٹی ملتی ہے نہ ہی دودھ، دہی اور دیگر روزمرہ ضرورت کی چیزیں سستی مل سکتی ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ سستے بازاروں اور اوپن مارکیٹ کی قیمتوں میں صرف انیس بیس کا فرق ہوتا ہے۔ مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ جب تک ان بنیادی وجوہات کا تدارک نہیں کیا جاتا ، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے دیگر تمام اقدامات محض نمائشی ہوں گے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں کے تعین کےلئے اوگرا اور نیپرا جیسے ادارے بناکر خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔ ان اداروں نے قیمتوں میں ہفتہ وار بنیادوں پر ردوبدل شروع کردیا ہے۔ گذشتہ تین سالوں کے اندر تیل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کم از کم تین سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرچیز کی قیمت میں اس عرصے میں پانچ سے دس گنااضافہ ہوا ہے۔ 2023کے انتخابات میں عوام کے پاس سرخرو ہوکر جانے کےلئے حکومت کو کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ حکومت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے اپوزیشن بھی فرینڈلی مل گئی ہے۔ تھوڑی دیر کےلئے غلغلہ اٹھتا ہے پھر سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ حکومت کے پاس کام نہ کرسکنے کا یہ جواز نہیں ہے کہ اپوزیشن نے اسے کام کرنے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام نے اپوزیشن میں شامل جماعتوں کو کئی عشروں تک آزمایا۔ سب نے عوام کو مایوس کردیا۔ عمران خان پاکستان کے جمہوری نظام کا آخری آپشن ہے اگر پی ٹی آئی کی حکومت بھی ناکام ہوگئی تو اگلے انتخابات میں بیس فیصد لوگ بھی ووٹ دینے پولنگ سٹیشن نہیں آئیں گے۔ اور سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کا جواز کھودیں گی۔