پولیس اصلاحات اور اصل کام۔۔۔۔

پی ٹی آئی کی گذشتہ صوبائی حکومت نے پولیس کو مکمل خودمختاری دیتے ہوئے اس کےلئے قانون سازی بھی کی تھی اوراسی کے بعد سے خیبرپختونخوا پولیس کو مثالی اورماڈل پولیس قراردیناشروع کیا گیا تھا خود وزیراعظم عمران خان آج بھی خیبرپختونخواپولیس کو دوسروں کےلئے مثال بناکر پیش کرتے رہتے ہیں اگر پی ٹی آئی کی بات کی جائے تو سرکاری محکموں اور اداروں میں اصلاحات اس کے منشور کا اہم حصہ رہاہے پارٹی کے حلقے اورخودموجودہ صوبائی حکومت کے ذرائع کابھی یہی کہناہے کہ لوگوںنے اصلاحات کے نفاذ، میرٹ کی بالادستی اور شفافیت کو یقینی بنانے کےلئے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے اسلئے اداروں میں اصلاحات کا سلسلہ جاری رہے گا تاکہ اداروں کو مستحکم بناکر ان کی استعداد کار میں اضافہ کیا جاسکے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات اور بہتر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے اب اس حوالہ سے وزیر اعلیٰ محمود خان نے کابینہ ممبران شہرام ترکئی ، شوکت یوسفزئی اور کامران بنگش پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے ، جو پولیس کے لیے مجوزہ اصلاحات کا تما م پہلوﺅں سے تفصیلی جائزہ لے کر صوبائی کابینہ کے غور وخوض کے لئے سفارشات تیار کرےگی، سیکرٹری داخلہ ،سیکرٹری قانون، ایڈوکیٹ جنرل اور پولیس کے اعلیٰ حکام سفارشات کی تیاری میں کمیٹی کی معاونت کرینگے۔صوبائی حکومت کا سرکاری اداروں اور محکموں میں اصلاحات لانا ایک مستحسن اقدام ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اداروں کی مضبوطی پی ٹی آئی کے منشور میں ہے ادارے مضبوط ہوں گے تو ان کی کارکردگی بہتر ہوگی اور وہ عوام کو ڈلیور کرسکیں گے، بد قسمتی سے اس سے قبل کسی حکمران نے اداروں کی مضبوطی کےلئے کام نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اداروں کی کارکردگی مایوس کن رہی اور ان پر عوام کا اعتماد نہیں رہا۔ جہاں تک پولیس کا تعلق ہے تو سچ یہ ہے کہ گذشتہ دور حکومت میں ملنے والی خود مختاری کے باوجود ا س کی کارکردگی لوگوں کااعتماد جیتنے میں ناکام رہی ہے خود موجودہ صوبائی حکومت کو بھی اس حوالہ سے ضرور سوچناچاہئے پشاو رہی کی بات کریں تو گذشتہ دنوں ایک ہفتہ کے دوران دو بدترین واقعات پیش آئے ایک واقعہ میں پولیس نے بنوں کے ایک طالبعلم کو مارڈالا جبکہ دوسرے واقعہ میں پولیس کی بدترین غفلت کی وجہ سے حوالات میں ایک طالبعلم نے خود کشی کرلی جس کے پوسٹمارٹم رپورٹ میں اب اس پر بہیمانہ تشدد کی تصدیق بھی ہوچکی ہے ان دو واقعات کے علاوہ بھی اگر دیکھا جائے تو تھانہ کلچر کے حوالہ سے پرانی شکایات اب بھی برقرار ہیں سماج دشمن عناصر کو عزت دینا اور داد رسی کےلئے جانےوالوں کو مایوس کرنے کےساتھ ساتھ کمزوروں اورطاقتوروں کےساتھ الگ الگ سلوک نے بھی خیبرپختونخوا پولیس کے امیج کو داغدار کرنا شروع کیاہواہے اگر دیکھاجائے تو خیبرپختونخوا پولیس شہداءکی فورس ہے اس نے دہشتگردی کی لہر کے دوران جس جرات کےساتھ کام کیا اوراپنا حوصلہ و عزم برقراررکھا یقینا پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملے گی سپاہی سے لےکر ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کے عہدے تک کے افسران نے شہادتیں پیش کیں مگر فورس کامورال گرنے نہیں دیا گیا اب دیکھنایہ ہے کہ گذشتہ چند سال کے دوران ہمارے ہاں پولیس فورس جس طرح جارحیت کی راہ پر چل پڑی ہے اس کی وجہ آخرکیاہے پچھلے چند واقعات کی بدولت پولیس پر عوام کا اعتماد بڑی حد تک متزلزل ہوگیا ہے ، اس سے پہلے بھی پولیس کا قبلہ درست کرنے اور اسے عوام کا پاسبان اور محافظ بنانے کےلئے اصلاحات کی گئی ہیں لیکن اسکے باوجود پولیس اپنے آپ کو حاکم اور عوام کو محکوم تصور کرتی ہے۔یاد رہے کہ پولیس عوام کے تعاون کے بغیر بہتر نہیں ہوسکتی۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ پولیس اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں عوام کی محافظ بن کردکھا ئے۔ یہ کوئی مشکل یا ناممکن امر نہیں ہے اس کےلئے بہترین حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے اورشاید اسی لیے اب صوبائی حکومت نے ایک تین رکنی کمیٹی قائم کردی ہے جو اس حوالہ سے اپنی سفارشات پیش کرےگی کہ کس طرح پولیس فورس کی خودمختار ی کویقینی بناکر اسکی کارکردگی مزید بہتر بنائی جاسکتی ہے یہ حقیقت ہے کہ پولیس کی خود مختاری از بس ضروری ہے، تاہم خود مختاری سے قبل پولیس کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا بے حد ضروری ہے،عوام اور پولیس کے مابین رابطہ بالکل نہیں ہے کمیٹی اپنی سفارشات مرتب کرتے وقت سارے زمینی حقائق سامنے رکھے کہ آیا پولیس کو مزید خود مختاری دینے سے پولیس عوام کے محافظ کا کردار ادا کرسکے گی اور عوام کے حوالہ سے اپنا رویہ درست رکھے گی یا نہیں۔اگر پولیس عوام دوست بن جائے تو اس سے پولیس کی نیک نامی ہوگی اور عوام پولیس سے بھر پور تعاون کریں گے اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی کو پولیس فورس میں جارحیت کے رجحان کی وجوہات تلاش کرکے ان کی بیخ کنی کے حوالہ سے بھی کام کرناہوگا اس کےلئے پولیس کے اوقات کار اور ساتھ ہی افسران کااپنے ماتحتوں کےساتھ رویہ کو بھی دیکھنا ضروری ہے عام طورپر دیکھا گیاہے کہ افسران کا بسا اوقات اپنے ماتحتوں کےساتھ رویہ انتہائی کرخت ہوتاہے پھر اوقات کار کابھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا کہیں بہت زیادہ توہین آمیز سلوک اور حد سے زیادہ کام کی وجہ سے پیداہونےوالا تناﺅ تو پولیس فورس میں جارحیت کے رجحان کی وجہ تو نہیں اس حوالہ سے بھی کمیٹی کو یقینا کام کرناچاہئے تاہم بہتر ہوگاکہ اس کمیٹی میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس پولیس افسران اوراہلکارں کی نمائندگی بھی یقینی بنائی جائے تاکہ تمام پہلوﺅں کاجائزہ لے کر ایک بارہی جامع سفارشات کی تیاری کو ممکن بنایا جاسکے کیونکہ کوئی کچھ بھی کرے جتنی چاہے اصلاحات لائے جتنے بھی چاہے اقدامات کرے ،کاروائیوں پر توجہ دی جائے جب تک مسئلے کی بنیاد تک نہیں پہنچا جائے گا تب تک کسی قسم کی بہتر ی کی امید خام خیالی ہی ہوگی۔