پشاور کہانی: درد ِ سر۔۔

موضوع مسلسل ہے کہ تاریخ کے ایک طویل سفر میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیابی کے بعد ’پشاور‘ جن موجودہ مسائل و مشکلات کے گرداب میں آ پھنسا ہے کیا اِس سے چھٹکارہ (رہائی) ممکن ہے؟ کوشش مسلسل ہے کہ اِس متعلق موضوع کے اُن چیدہ چیدہ پہلوو¿ں پر روشنی ڈالی جائے جو بظاہر خشک دکھائی دیتے ہیں لیکن اِن کا تعلق ’پشاور کے مستقبل سے ہے اور اگر آج بھی اِن موضوعات پر عوامی حلقوں میںبات چیت نہیں ہوتی تو پہلے ہی دیر ہو چکی ہے اور اندیشہ ہے کہ پشاور کےلئے آئندہ کی انتخابی حکمت عملی یا سیاسی ترجیحات کا تعین کرنے والے ایک مرتبہ پھر غلطی کر بیٹھیں گے۔۔ ”درد ِ سر کا پہر پہر ہے اب .... زندگانی ہی درد ِ سر ہے اب (میر تقی میر)۔“”پشاور کہانی: نہری نظام (اٹھائیس مارچ) کے حوالے سے قارئین کے 3 سوالات دلچسپ‘ اور اِس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ پشاور کے موضوع سے دلچسپی موجود ہے اور عوام اپنے ہی شہر کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں بالخصوص اُن ترقیاتی اور غیرترقیاتی امور کے حوالے سے عام آدمی کی ’کھوج کی حس‘ پہلے سے کہیں زیادہ جاگ اُٹھتی ہے جب اُسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف سیاسی و غیرسیاسی ادوار میں ’پشاور کے مسائل کا حل‘ تلاش کرنے والے سینکڑوں کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائے اور ایسا ہونے کی آئندہ بھی کوئی اُمید نہیں کیونکہ سرکاری کاموں کےلئے منصوبہ بندی سے مالی وسائل مختص کرنے کے مراحل اِس قدر زیادہ اور پیچیدہ ہیں کہ اِنہیں طے کرتے ہوئے ایک تو فیصلہ ساز حکومت کی آئینی مدت ختم ہو جاتی ہے یا پھر صوبائی اور وفاقی خزانے سے اچانک مالی وسائل کسی ایسی ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کی نذر ہو جاتے ہیں جو اپنی جگہ اہم ہوتی ہے جیساکہ حالیہ چند مہینوں میں ’کورونا وبا‘ کو دیکھا گیا جس سے ممکنہ بچاو¿ اور علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے کےلئے دیگر ترقیاتی منصوبوں پر کام کاج کو روکنا پڑا اور ساری توجہ ’کورونا وبا‘ کےلئے ادویات یا علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے کی نذر کرنا پڑی۔ اِس مرحلہ¿ فکر پر ’اہل پشاور‘ یہ نکتہ بھی بطور خاص ذہن میں رکھیں کہ سرکاری محکمے توسیعی منصوبہ بندی (مستقبل کی ضروریات) کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی سڑک بنائی جا رہی ہے یا کسی گلی کی فرش بندی کی جا رہی ہے یا کسی علاقے کو پانی فراہم کیا جا رہاہے تو یہ سہولت اُس کی موجودہ آبادی کی ضرورت کےلئے بھی ناکافی ہو گی چہ جائیکہ وہ آئندہ دس بیس سال کےلئے کافی ہو۔ بلدیاتی خدمات فراہم کرنے والے سرکاری محکموں کے پاس آبادی کے اعدادوشمار وہی ہوتے ہیں‘ جو سرکاری طور پر ایک خاص وقفے سے جاری کئے جاتے ہیں اور جن میں شرح نمو کا اپنا ایک خاص طریقہ (سائنسی فارمولہ) ہوتا ہے جو اکثر غلط ثابت ہوتا ہے۔ کسی یونین کونسل کی آبادی اور وہاں کی ہر گلی میں رہنے والے ہر فرد کا شمار نیز گھر کے رقبے سے لیکر وہاں سہولیات کی موجودگی کے بارے میں ہر یونین کونسل دفتر میں’تازہ ترین کوائفموجود کیوں نہیں ہو سکتے جبکہ جن مغربی معاشروں سے بلدیاتی نظام اُدھار لیا گیا ہے وہاں یونین کونسل بنیادی اکائی ہے اور یہی سب سے زیادہ درست و تازہ ترین معلومات رکھتا ہے۔ کمپیوٹروں کے زمانے میں کسی بھی یونین کونسل کے ہر گھر پر ایک آہنی تختی اور نمبرشمار لگا کر کوائف جمع کرنے میں چند ہفتوں سے زیادہ وقت نہیں لگے گا اور اگر اِس کام کو تجرباتی طور پر کسی ایک یونین کونسل میں سرانجام دیا جائے تو نہ صرف بلدیاتی بنیادی سہولیات جیسے 5 اہداف باآسانی حاصل کرنا ممکن ہو جائیںگے بلکہ اِس سے مختلف ادارے ایک دوسرے سے مربوط بھی ہوں گے اور منصوبہ بندی کے مرحلے پر کم خرچ سے مسائل کا حل تلاش کرنا ممکن ہوگا۔ ‘ بہرحال شہری ترقی اور منصوبہ بندی ایک نہایت ہی گہرا اور پیچیدہ و مربوط عمل کا نام ہے جو ماحولیاتی تحفظ سے لیکر بچت اصولوں اور پائیداری تک پھیلا ہوا ہے اور اِسے سمجھنے کےلئے تکنیکی اعتبار سے اگر ہر ایک پہلو کو کھول کر بیان کیا جائے تو الگ الگ مضامین ترتیب پاتے چلے جائیں گے۔ اہل پشاور کےلئے ترقیاتی حکمت عملیوں‘ منصوبہ بندیوں اور عملی اقدامات کے درمیان فرق کو آئندہ چند سطور میں واضح کرنےکی کوشش کی جائےگی تاکہ قارئین کے جو 3 سوالات بطور خاص سامنے آئے ہیں‘ اُن کے بارے میں تصورات اور زمینی حقائق واضح ہو سکیں اور تشنگی‘ حیرت‘ تماشے پر مبنی منتخب و غیرمنتخب فیصلہ سازوں کی کارکردگی کے چند پہلو سامنے آ سکیں جو نظروں میں ہونے کے باوجود‘ ایک خاص طریقہ¿ واردات کی وجہ سے اُوجھل ہیں۔پہلا سوال: کیا پشاور میں بھی نہری نظام موجود ہے؟ دوسرا سوال: عدالت کی مداخلت کے باوجود پشاور کے نہری نظام کی بحالی میں کیا امر اور کونسی مشکل مانع ہے؟ اور تیسرا سوال پشاور شہر یا مضافاتی علاقوں سے گزرنے والے نہری نظام کی حسب ضرورت (آبادی کے تناسب سے بروقت) توسیع کیوں نہیں کی گئی؟ پشاور کی خوبصورتی اور کشش میں یہاں کی کئی خوبیوں پر نظر کی جا سکتی ہے جو اگرچہ زیادہ مثالی حالت میں موجود نہیں لیکن اُنہیں ترقی دیکر شہری سہولیات میں اضافہ ممکن ہے اور اِس کا تفصیلی احوال کسی موقع پر تفصیلاً بیان کیا جائے گا۔ دوسرا سوال نہری نظام کی توسیع و بحالی جیسی نظر آنے والی ضرورت کا ہے تو اِس سلسلے میں ایک ترقیاتی منصوبہ وفاقی حکومت کے تعاون سے سال 2018ءمیں مکمل ہو جانا چاہئے تھا جس پر لاگت کا ابتدائی کل تخمینہ 8 ارب تھا لیکن مالی وسائل حسب وعدہ (حسب اعلان) فراہم نہ کرنے کی وجہ سے منصوبے کی لاگت 12.14 ارب روپے تک جا پہنچی اور اگر یہ منصوبہ بروقت مکمل ہو جاتا تو اِس سے پشاور کو 700 کیوسک اضافی پانی ملتا جس میں سے 300 پینے (آبنوشی) اور 400 اُن زرعی زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لئے استعمال ہوتا جو پانی نہ ہونے کی وجہ سے ضلع پشاور میں بنجر پڑی ہیں اور ایسی زمینیں باآسانی غیرمنظم و غیرقانونی رہائشی بستیوں میں تبدیل ہو کر ایک نئے مسئلے کو جنم دیتی ہیں جبکہ خوراک کا تحفظ (زرعی پیداوار) بھی ممکن نہیں ہو پاتا یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس حوالے سے منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پشاور کے مسائل کا حجم انفرادی نہیں اجتماعی حیثیت میں اِس قدر بڑھ چکا ہے اور ہر دن بڑھ رہا ہے کہ اگر اِس ’درد ِ سر‘ کا علاج کرنے کےلئے بھی ’ہنگامی حالات‘ کا اعلان نہ کیا گیا تو یہ وبا کئی دیگر وباو¿ں سے زیادہ (ناقابل تلافی) جانی و مالی نقصانات کا باعث بنے گی۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی!