میرٹ کی بالادستی پر سوالات۔۔۔۔

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں کے نواحی گاﺅں ہوید سے تعلق رکھنے والے35سالہ نوجوان شہباز خان کی کہانی ہمارے معاشرے کے تاریک رخ کی عکاسی کرتی ہے۔ شہباز آٹھ مختلف مضامین میں ایم اے کرنے کے باوجود بھی ساڑھے تین ہزار روپے کی تنخواہ پر غلہ منڈی میں چوکیدار کی نوکری کرنے پر مجبور ہے۔شہباز خان نے عربی، پشتو، انگلش، ہسٹری، اکنامکس اور ایجوکشن کے مضامین میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔دینی مدارس کی سندیں اور مختلف قسم کے کمپیوٹر کورسز بھی کر رکھے ہیں۔ محنت مزدوری کے ساتھ پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رکھا، ہر محکمے میں خالی آسامی کےلئے درخواست دی۔ میرٹ پر بھی آیا مگر سفارش اور رشوت دینے کے لئے پیسے نہ ملنے کی وجہ سے اب تک نوکری نہیں ملی۔شہباز نے بتایا کہ وہ شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ ہے کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ غلہ منڈی میں چوکیداری کے ساڑھے تین ہزار جبکہ مدرسے میں بچوں کے پڑھانے کے تین ہزار ملتے ہیں جس سے مہنگائی کے اس دور میں گزارہ بہت مشکل ہے۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کسی سرکاری محکمے میں کلاس فور کی ملازمت بھی مل جائے تو خوشی ہو گی کہ بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کوئی وسیلہ مل جائے گا۔شہباز خان جیسے ہزاروں نوجوان ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کومواقع نہ ملنے کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں۔ میرٹ کی بالادستی، رشوت اور سفارش کلچر کو دفن کرنا موجودہ حکومت کے انتخابی منشور کا حصہ ہے رشوت اور سیاسی سفارش پر سرکاری اداروں میں بھرتیوں کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ آج تمام سرکاری اداروں میں رشوت کا بازار گرم ہے۔ کیونکہ جن لوگوں نے نوکری بھاری رقم کے عوض خریدی ہے انہوں نے اپنی رقم سود سمیت رشوت کی صورت میں حاصل کرنی ہوتی ہے۔ چند فرض شناس افسروں کی تعیناتی سے سرکاری اداروں میں پھیلا ہوا گند صاف نہیں ہوسکتا۔ صوبائی حکومت نے سرکاری اداروں میں تطہیر کا عمل محکمہ تعلیم سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور موجودہ تدریسی سٹاف کے لئے ایٹا ٹیسٹ پاس کرنے کی شرط عائد کی تھی۔ مگر پھر یہ فیصلہ نامعلوم وجوہات کی بناءپر منسوخ کردیا گیا۔ سرکاری اداروں کو نااہل اور راشی اہلکاروں سے پاک کئے بغیر ان اداروں میں قابل اور اہل لوگوں کےلئے گنجائش پیدا ہونا مشکل ہے اور شہباز خان جیسے لوگ ڈگریاں بغل میں دبائے سڑکیں ناپتے ناپتے تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے چوکیدار اور سیکورٹی گارڈ کی نوکری شروع کریں گے ۔ جو شخص انگلش، اکنامکس اور ایجوکیشن جیسے اہم مضامین میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود ملازمت سے محروم رہ جائے۔ ایسے معاشرے میں نوجوان کس امید کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک و قوم کو کیا فائدہ پہنچائیں گے؟اسکے لئے ضروری ہے کہ میرٹ پر بھرتیوں کاایسا نظام ہو کہ ہر کوئی بغیر سفارش اپنی اہلیت کے مطابق پوسٹ پر بھرتی ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان محض سرکاری نوکری کے انتظار کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اچھی نوکری تلاش کریں تو بہتر ہے۔