”ابھی اس کی عمر 13سال تھی، ابھی تو اس کے کھیلنے کودنے کے دن تھے، ابھی اتنی چھوٹی تھی کہ اپنے ہاتھ پر مہندی لگانے کا طریقہ بھی اسے پوری طرح نہیں آیا تھا، ابھی وہ گھڑیا کی شادی رچانے کےلئے خوش ہوتی ہوگی ۔ وہ بھی شاید دیگر لڑکیوں کی طرح ہر خواہش کی تکمیل چاہتی ہوگی لیکن وہ بہت بدقسمت نکلی، نہ تو وہ پوری طرح کھیل کود سکی نہ وہ کھل کر اپنے ہاتھوں پر مہندی لگاسکی، اس کی گڑیا اس کا انتظار کرتی رہ گئی،اور اس کی ہر خواہش مٹی میں مل گئی۔“ اوپر کا پیراگراف راقم کے روزنامہ آج میں چھپے ہوئے ایک کالم سے اقتباس کے طور پر لیا گیا ہے ، یہ کالم مئی 2012میں شائع ہوا تھا۔ کس قدر بدقسمتی کا مقام ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ معصوم بچوں بالخصوص بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں کوہاٹ میں ایک اور چھوٹی بچی زیادتی کے بعد قتل کردی گئی جس عمر 3سے 4سال کے درمیان تھی۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ یہ واقعات رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے، ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے مردان میں دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کردیا گیا تھا، اس سے پہلے زینب قتل کیس کا واقعہ ہوچکا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس صرف خیبر پختونخوا میں بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے 182واقعات رجسٹرڈ ہوئے جن میں سب سے زیادہ ڈی آئی خان میں 34، پشاور میں 26اور مردان میں 19واقعات رپورٹ ہوئے، اسی دوران قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی جانب سے گذشتہ برس 235افراد کو ان جرائم میں گرفتار بھی کیا گیا ۔زینب قتل کے واقعہ کے بعد اگر چہ حکومتوں کی جانب سے ریپ کے مجرمان کو سخت سے سخت سزائیں دینے کےلئے قانون سازی کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں جنہیں کاغذی کاروائی کی حد تک منطقی انجام تک بھی پہنچا دیا گیا، حکومت نے زینب الرٹ بل اسمبلی سے پاس کراتے ہوئے قانونی طور پر نافذ بھی کردیا لیکن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات بدستور جاری ہےں۔زینب الرٹ بل کے حوالے سے یہ امید کی جارہی تھی کہ اس بل کے نافذالعمل ہونے کے بعد مذکورہ واقعات کی روک تھام میں واضح مدد ملے گی لیکن حقائق تاحال اس کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔ میرے اس argumentکا ہر گز بھی یہ مطلب نہیں کہ ان واقعات کی تمام تر ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے قانون سازی تو کردی گئی ہے، اور اس حوالے سے مزید بھی کچھ کرنے کی گنجائش ہے، لیکن یہاں یہ بات کہنا بے جا نہیں ہوگی کہ حکومت کی جانب سے اس معاملے میں ایک کوتاہی تو ہمارے سامنے ہے جس کے مطابق حکومت اور انتظامیہ کو زینت الرٹ بل کے پاس ہونے کے بعد قانونی طور ایک ایسی ایجنسی کا قیام عمل میں لانا تھا جس نے جنسی زیادتی کے جرائم کے کیسز کو کم سے کم وقت میں منطقی انجام تک پہنچانے میں معاونت فراہم کرنا تھی، لیکن یہ ایجنسی آج تک نہیں بن پائی۔ ویسے ہمارے ملک میں جس کسی بھی معاملے میں کسی خصوصی ایجنسی کے قیام کی بات آتی ہے تو وہ معاملہ عملی طور پر لٹک ہی جایا کرتا ہے ، مثال کے طور سال 2010میں اسمبلی سے ایک قانون پاس کرایا گیا تھا جو کہ عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کےلئے تھا، اس قانون کے مطابق حکومت اور انتظامیہ نے ایک مخصوص ایجنسی قائم کرنا تھی جس نے خواتین پر تیزاب پھینکنے والے جرائم کو منطقی انجام تک پہنچانے میں قانون اور تکنیکی معاونت فراہم کرنا تھی لیکن یہ ایجنسی آج تک نہیں بن سکی۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی جرم کا راستہ روکنے کےلئے قانون سازی پہلا اور انتہائی ضروری عمل ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری عمل ان قوانین کو عملی طور پر پورے معاشرے پر لاگو کرنا ہے، یقین کیجئے کہ اگر موجودہ دستیاب قوانین کو ہی مکمل طور پر نافذالعمل کردیا جائے تو بہت سے جرائم کا راستہ روکا جاسکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں قوانین ہونے کے باوجود ان قوانین پر مکمل عملدارآمد کی کمی ہے ‘ مذکورہ جرائم کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جبکہ اس کے جواب میں عوامی ردِ عمل میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے، اس قبیح جرم سے نفرت کی آوازیں بھی انتہاﺅں کو چھو رہی ہیںجبکہ حکومت بھی قانون سازی میں ایک قدم آگے جانے کی کوششوں میں ہے لیکن پھر بھی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ یہاںچند سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں کہ پے درپے قوانین بننے کے بعد بھی یہ واقعات کیوں بڑھتے چلے جارہے ہیں؟ ہم اپنی بچیوں کو تحفظ کیسے دیں گے؟ کمی اور کوتاہی کہاں پر ہے؟ ۔ ان تمام سوالات کے جواب میںایک رائے یہ بنتی ہے کہ حکومتی کوششوں کے ساتھ ساتھ والدین کو اپنی بچیوں کا خود تحفظ بھی کرنا ہے بلکہ انہیں اپنی بچیوں کی ذہنی تربیت بھی کرنا ہوگی کہ وہ ارد گرد موجود خطرات کو محسوس کرسکیں۔ بچے اور بچیاں ہمارے ملک کا مستقبل ہیں اور اس مستقبل کی حفاظت کرنا ہر شہری کا فرض بنتا ہے نہ کہ صرف حکومت اور حکومتی اداروں کا۔