جانی خیل معاہدہ‘مکمل عملدرآمد ناگزیر۔۔۔۔

سرزمین پختونخوا کے باسی اب بھی آزمائشوںسے دوچار چلے آرہے ہیں گذشتہ چالیس برس سے یہاں پر بدامنی کی جو آگ لگائی گئی ہے اس کے شعلے کبھی بھڑک اٹھتے ہیں کبھی مدھم پڑ جاتے ہیں کبھی تو یوں محسوس ہوتاہے کہ آگ بجھ گئی ہے مگر پھراچانک کہیں کو ئی شعلہ نمودار ہوجاتاہے جس کے ساتھ ہی تمام بلندوبانگ دعوے ہوا ہوجاتے ہیں ایک طرف غربت ،پسماندگی ،بیروزگاری اورجہالت نے مسائل کو جنم دے رکھا اوردوسری طرف بدامنی کی آگ بھی سب کچھ ملیا میٹ کرنے پر تلی دکھائی دینے لگتی ہے اس پر ہمار ا غیر سنجیدہ رویہ مزید مشکلات کاباعث بننے لگتاہے نجانے کیوں ہم معاملات کو بروقت حل کرنے کے قائل ہی نہیں رہے جب پانی سر سے گذرنے لگتاہے تو پھر بھاگ دوڑ شروع کردی جاتی ہے اس دوران معاملات کو خراب ہونے اور تیسرے ہاتھ کو فائدہ اٹھانے کاپورا پوراموقع ملتاہے یہی کچھ جانی خیل بنوںکے واقعہ میں بھی ہوا اکیس مارچ کو اس علاقہ سے تعلق رکھنے والے چار نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں جو اکٹھے شکار پر گئے تھے مگر جب ان کی لاشیں گھروں کو پہنچیں تو اس بار ردعمل نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا لواحقین نے احتجاج کرتے ہوئے دھرنا دے دیا اوراعلان کیاکہ جب تک علاقہ میں قیام امن کو ممکن نہیں بنایا جاتا حکومت ٹھوس اقدامات نہیں کرتی لاشیں سپردخاک نہیں کی جائیں گی پھریہ دھرنا کوئی آٹھ دن تک جاری رہا ان کے عزائم نیک تھے وہ چاہتے کہ ان کے بچے تو چلے گئے اوروں کے ساتھ ایسانہ ہو اسی لیے میدان میں نکل آئے یہی وہ وقت تھاکہ جب تیسراہاتھ بھی سرگرم ہوگیا بے ضرر قسم کے مطالبات پرمبنی دھرنے کے شرکاءکے ساتھ مذاکرات اور جرگے کی ہر کوشش ناکام بنائی جانے لگی مقامی سطح پر معاملہ حل کرنے کےلئے کوششیں شروع ہوئیں انتظامیہ بھی سرگرم ہوگئی مگر اس ایشو کو عالمی سطح پر ہائی لائٹ کرکے بعض قوتیں مذموم مقاصد کے حصول کےلئے متحرک ہوچکی تھیں جہاں تک جانی خیل قبائل کاتعلق ہے تو دیگر پختونوں کی طرح یہ لوگ بھی انتہائی درجہ کے محب وطن ہیں پختون تو وہ لوگ ہیں کہ ایک ایک ساتھ ڈیڑھ ڈیڑھ سو جنازنے بھی اٹھائے مگر مجال ہے کہ ریاست کے خلاف کبھی نعرہ بلند کیاہو پختونوں کے مسائل کے حل کی بنیاد پر بننے والی تنظیمیں پھرجس طرح غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگی تھیں وہ بھی سب کے سامنے ہے تاہم پختونوں نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کی اورنہ ہی وہ پاکستان کے علاوہ کسی اورجگہ کو اپنے لیے جائے پناہ سمجھتے ہیں جانی خیل قبائل کو بھی رفتہ رفتہ اندازہ ہونا شروع ہوگیاکہ کچھ لوگ مذاکرات کوسبوتاژ کرنے کے لیے کوشاں ہیںاس سلسلہ میں شہداءکے لواحقین نے بالخصوص انتہائی ذمہ داری کامظاہرہ کیا اور آخرکار جانی خیل قبائل کے ساتھ حکومتی جرگہ کامیابی سے ہمکنارہوگیا اور معاہدے پر دستخط بھی ہوگئے وزیر اعلیٰ محمود خان نے جانی خیل واقع کے سلسلے میں مذاکرات کا کامیاب بنانے اور دھرنا ختم کرنے کے اعلان پر جانی خیل قوم کے مشران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جانی خیل واقعہ انتہائی دلخراش اور افسوسناک تھا جس کی پر زور مذمت کرتا ہوں حکومت ایسے افسوسناک واقعات کی روک تھام کےلئے پوری کوششیں کررہی ہے تاہم حکومت کے ساتھ عوام اور سیاسی رہنماﺅں سمیت سب کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یقینا وزیراعلیٰ نے علاقے کے مشران کی جانب سے تمام شرائط من وعن تسلیم کرکے فراخدلی کا ثبوت دیا احتجاج کے دوران گرفتار افراد کو فی الفور رہا کیا جائے گا شہداء کےلئے شہید پیکج دیا جائیگا امن کی بحالی کےلئے روڈ میپ بنایا جائے گا علاقے کےلئے ترقیاتی پیکج دیا جائیگا۔ وزیر اعلیٰ محمود خان نے متاثرہ خاندانوں سے رابطے کئے ان سے تعزیت کی اور ذمہ داروں کو نشان عبرت بنانے کے عزم کا اظہار کیا وزیراعلیٰ کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے احکامات یا اعلانات پر عمل درآمد کرانے کی ذاتی طور پر نگرانی کرتے ہیں ان کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ ان کے احکامات یا اعلانات کو عملی جامہ پہنایا جائے اس سلسلہ میں وہ کسی قسم کی غفلت یا کوتاہی برداشت نہیں کرتے جانی خیل کے معاملہ میں بھی وزیراعلیٰ ہی آخر میں نہ صرف متحرک ہوئے بلکہ بنوں میں ڈیرے بھی ڈال دیئے انہوں نے واضح کردیاتھاکہ وہ کسی قسم کے تصفیہ کے بغیر واپس نہیں جائیں گے چنانچہ ان کی رات بنوں کے کمشنرہاﺅس میں ہی جاگتے ہوئے گذری اور پھرتصفیہ کراکے ہی واپس آئے بنوں کے کمشنر شوکت یوسفزئی جو خود ایک متحرک اورفعال سرکاری افسر ہیں نے روز اول سے ہی وزیر اعلیٰ کو تمام حقائق سے باخبررکھا جبکہ مذاکراتی کوشش ناکام بنانے والوں پربھی نہ صر ف کڑ ی نظررکھی بلکہ اس حوالہ سے وزیراعلیٰ کو بھی اعتمادمیں لیے رکھا اس معاملہ کے پرامن حل میں ان کوششوں کو یقینا نظراندازنہیں کیاجاسکتا انہوں نے ایک بارپھر اپنے انتخاب کو درست ثابت کردکھایاہے جہاں تک جانی خیل واقعہ کاتعلق ہے تویقینا یہ ایک دلخراش واقعہ تھا اس سلسلہ میں جانی خیل نے ایک ہفتہ سے زائد عرصہ دھرنا بھی دیا اور اسلام آباد کا رخ بھی کیا تاہم حکومت کے بروقت اقدامات کے نتیجہ میں جانی خیل کے مشران سے کامیاب مذاکرات ہوئے دھرنا ختم کردیا گیا۔ جرگہ پختون روایات کا اہم جزو ہے۔جرگوں کے ذریعے دشمنیاں ختم ہوتی رہی ہیں ، تنازعات کا حل نکالا جاتا ہے اختلافات ختم ہوتے ہیں اور متحارب فریق باہم شیر وشکر ہوتے ہیں ، جرگہ کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے کوئی بھی جرگہ کے فیصلوں سے انخراف نہیں کرتا اگرکوئی کرتاہے تو اسکو سزا دی جاتی ہے مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ہماری پختون قوم کی روایات کا حسن ہے جانی خیل کے متاثرین اور مشران کے ساتھ مذاکرات جرگہ ہی کے ذریعے کامیاب ہوئے وزیر اعلیٰ محمود خان نے مذاکرات کا کامیاب بنانے پر جرگہ کے مشران اور صوبائی مذاکراتی ٹیم اور انتظامیہ کے کردار کی تعریف کی اور متاثرہ خاندانوں کےلئے 25 لاکھ روپے فی خاندان معاوضوں کے چیک پیش کئے اب تاہم اتنا ضرور ہے کہ صوبائی وزراءکو کافی پہلے متحرک ہوناچاہئے تھا نوبت وزیر اعلیٰ کی بنوں آمدتک پہنچنی ہی نہیں چاہئے تھی اب جبکہ وزیر اعلیٰ کی بروقت مداخلت اوربنوں کی ڈویژنل انتظامیہ اورقبائلی جرگہ کی مسلسل کوششوں کے بعد جانی خیل قبائل کے ساتھ معاہدہ ہوچکاہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاہدہ کے تمام نکات پر من وعن عملدر آمد کویقینی بنایا جائے تاکہ کچھ عرصہ بعد تیسرے ہاتھ کو پھر معاملات خراب کرنے کاجواز نہ مل سکے۔