بحرین سوات سے نکلنے والے علمی اور تحقیقی مجلہ سربلند کے اوراق سے یہی بات سا منے آتی ہے کہ علمی آگا ہی پھیلا نے میں عوام اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کا کر دار حکومت کے اقدامات کو مزید تقویت دیتا ہے سوات کا سر بلند ایسا مجلہ ہے جو کسی بھی طرح یو نیور سٹی اور بڑے تحقیقی اداروں کے جرائد ورسائل سے کم نہیں بلکہ وقعت اور ما ہیت میں اُن کے بر ابر و ہم سر ہے سر بلند کے لکھا ریوں میں گجرات سے گلگت اور چلاس سے چترال تک بڑے بڑے محقق ، دانشور اور ادیب شامل ہیں اس کے عنوا نات و مضا مین کا دائرہ لسا نیات اور بشریات کا احا طہ کرتا ہے اس میں گلگت ، بلتستان ہنزہ ، انڈس کو ہستان ، سوات کوہستا ن ،سوات ، دیر ، چترال اور وادی کا لا ش کی تہذیب و تمدن کے پو شیدہ گو شوں پر قلم اٹھا یا گیا ہے مثا ل کے طور پر بہت کم لو گوں کو علم ہو گا کہ ہزارہ کوہستان میں ڈنہ کی پہا ڑی وادی کے اندر ما نکیا لی زبان بو لی جا تی ہے جو صرف 400 ( چارسو) افراد پر مشتمل آبادی کی زبان ہے جو اس کواپنی زبان کہتے ہیں بہت کم لو گوں کے علم میں یہ بات ہو گی کہ تور والی زبان میں ژو کے نا م سے ایک صنف سخن ہے جو ٹپہ اور اشور جا ن کی طرح ہزاروں سال پرا نی صنف ہے سر بلند نے سوات سے سراُٹھا یا ہے اس کا مقصد پہاڑی علاقوں کے ادیبوں اور قلمکاروں کو مواقع دینے کےساتھ پہا ڑی علا قوں کی تہذیب کے پو شیدہ گوشوں کو منظر عام پر لا نا ہے مجلے میں راز ول کو ہستا نی، ز بیر تور والی ، ڈاکٹر کا شف علی ، عزیز علی داد اور سیوا تسلوف کیورین وغیرہ کے مقا لا ت خاص طور پر تحقیقی نقطہ نظر سے لائق تو جہ ہیں سیوا تسلو ف اور شملیا اوف نے ملکر دردستان پر ایک تعارفی مقا لہ لکھا ہے عمران خا ن آزاد نے سر بلند کےلئے مقا لے کو اردو کا جامہ پہنا یا مقا لے کے اندر کو ہستا نی ، شینا ، بلتی اور کھوار تہذیب و زبان کے ساتھ مشرق میں بروکپا ، مغرب میں پشائی اور درمیان میں کا لا ش کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ آیا ہے جو دردستان کے تاریخی ، جغرافیا ئی اور معاشرتی پس منظر کو نما یا ں کر تا ہے راز ول کوہستانی نے شما لی پا کستان کے آثار قدیمہ پر ہونے والی تحقیق کیساتھ اس تحقیقی کا وش کے جرمن ‘ فرانسیسی اور انگریزی ما خذات پر قلم اٹھا یا ہے زبیر تور والی کا تحقیقی مقا لہ ایک وسیع تر کینو س میں شما لی پا کستان اور ہا ئی ایشیا کی زبا نوں میں حروف تہجی اور رسم الخط کے مسا ئل کا احا طہ کر تا ہے لسانیاتی مبا حث میں مصو توں اور مصمتوں کا فرق رسم الخط کے ذریعے واضح کر نے کی مثا لیں دی گئی ہیں ڈاکٹر کا شف علی نے کا لا ش تہذیب میں کا ہن اور کہانت ( Shamanism) کے زوال کا تحقیقی جا ئزہ لیا ہے اس کی طرف سیوا تسلوف کورین نے بھی اشارہ کیا ہے یہ روایت بلتستان‘ ہنزہ اور گلگت سے لیکر چترال اور وادی کا لاش تک پا ئی جا تی تھی شاما ن یا کا ہن پیش گوئی کرتا تھا ‘ڈاکٹر کا شف علی گجرات یو نیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں ان کا پی ایچ ڈی کا مقا لہ کا لا ش کی اصلیت پر ہے اس لئے ان کا مقا لہ بہت وقیع ہے تور والی زبان کی منفرد صنف شاعری ”ژو“ پر رحیم صابر نے قلم اٹھا یا ہے اس طرح مفتی عنایت الرحمن ہزار وی نے وادی ڈنہ کی زبان ما نکیا لی کا تعارف پیش کیا ہے یہ بھی تحقیقی ذوق کا مقا لہ ہے دلچسپ بات یہ ہے اس زبان کے بولنے والوں کی آبادی محض چار سو (400) ہے اور یہ لو گ اسکو ” اپنی زبان “ کہتے ہیں تاہم ماہرین لسانیات نے اس کو ما نکیا لی کا نا م دیا ہے یونیورسٹی آف نا رتھ ٹیکساس میں ڈاکٹر صدف منشی اس زبان پر کام کر رہی ہیں انہوں نے ڈنہ سے مانکیا لی بولنے والے ایک گریجو یٹ نوجوان کو اپنے لسا نیاتی کورس میں داخلہ دیا ہے تاکہ وہ اپنی زبان پر تحقیق کا حق ادا کر سکے سر بلند کا پہلا شمارہ بے شما ر خو بیوں کا حا مل ہے زبیر تور والی اس کے ایڈیٹر ہیں اور ادارہ تعلیم و تر بیت کے اہتما م سے یہ وقیع علمی اور تحقیق مجلہ شائع ہو تا ہے۔