چیئرمین واپڈا مزمل حسین کا کہنا ہے کہ آبی وسائل کے فروغ کےلئے ایک مربوط نظام کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی واٹر،فوڈاور انرجی سکیورٹی یقینی بنائی جا سکے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین نے کہا کہ واپڈا اس وقت آٹھ بڑے آبی منصوبوں پر کام کر رہا ہے جن میں دیامربھاشاڈیم،مہمند ڈیم اور داسوڈیم قابل ذکر ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے ملک میں پانی کی صورت حال میں بہتری آئے گی اور نیشنل گرڈ میں کم لاگت اور ماحول دوست پن بجلی کے تناسب میں اضافہ ہو گا۔یہ منصوبے اگلے آٹھ سالوں کے دوران مرحلہ وار مکمل ہوں گے، جن سے 11ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جائے گا، سیلاب کی روک تھام ہوگی ، 16لاکھ ایکڑ اراضی زیر کاشت آئے گی اور 9ہزار میگا واٹ پن بجلی بھی پیدا ہو گی۔ واپڈا 26ارب ڈالر لاگت کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ دیا مر بھاشا اور مہمند ڈیمز کی تعمیر کےلئے فنڈز کے انتظامات کے حوالے سے منفردفنانشل پلان بھی مرتب کیا گیا ہے ۔اس فنانشل پلان میں قومی خزانے پر کم سے کم انحصار کیا گیا ہے اور فنڈز کی دستیابی کےلئے واپڈاکی مالی پوزیشن کو استعمال میںلایا گیا ہے۔واپڈا پہلا سرکاری ادارہ ہے جسے بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے مستحکم قراردیا گیا ہے اور واپڈا عنقریب گرین یورو بانڈجاری کر رہا ہے۔ چیئر مین نے بتایا کہ ہمارے یہاں پانی کی فی کس دستیابی 1951 میں پانچ ہزار 650مکعب میٹر تھی جو کم ہو کر 908مکعب میٹر رہ گئی ہے اور ہم تیزی سے پانی کی کمی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کے دریاو¿ں میں آنے والے پانی کا صرف10فی صد ذخیرہ کیا جاتا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ شرح 40فیصد ہے۔پانی کی قلت دور کرنے کےلئے ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ واٹر کنزرویشن اور واٹر مینجمنٹ کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے گذشتہ پچاس سالوں میں پانی ذخیرہ کرنے اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کا کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا۔ گزشتہ حکومتوں نے تیل سے بجلی پیدا کرنے کےلئے غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ ان معاہدوں سے حکمرانوں کو تو خاطر خواہ کمیشن اور کک بیکس ملتے رہے مگر عوام کو بجلی مہنگی ملنے لگی۔ پانی سے بجلی پیدا کرنے پر ایک روپے فی یونٹ سے بھی کم لاگت آتی ہے۔ جبکہ تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی پندرہ روپے فی یونٹ پڑتی ہے۔ آبی وسائل میں خود کفالت کے باوجود آج ہم تھرمل پاور، کول پاور، سولر اور ونڈ پاور پر انحصار کر رہے ہیں جو ہمارے پالیسی سازوں کی سنگین لاپراہی، غفلت اور نااہلی کا ثبوت ہے۔ قوم کو توانائی کے بحران سے دوچار کرنے میں کوئی ایک حکومت ملوث نہیں بلکہ گزشتہ پچاس سالوں سے اس ملک پر حکومت کرنے والے تمام لوگ قوم کے مجرم ہیں ایک طرف ڈیڑھ پونے دو روپے یونٹ کی بجلی عوام کو اٹھارہ روپے فی یونٹ کے حساب سے فروخت کی جارہی ہے دوسری جانب بجلی کی قیمت سے تین گنا زیادہ ٹیکس لگا کر غریب عوام کی چمڑی ادھیڑی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت نے قومی ضروریات کو مدنظر رکھ کر آبی ذخائر کی تعمیر کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے ملکی معیشت اور عوام کے معیار زندگی پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے ۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی اہمیت کے ان منصوبوں کو ٹائم لائن کے اندر مکمل کرنے کےلئے اقدامات کئے جائیں اور ان منصوبوں کےلئے وسائل کی کمی آڑے نہیں آنی چاہئے ۔ نو ہزار میگاواٹ سستی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوجائے گی تو قوم کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات ملے گی۔ صنعتوں کا پہیہ چلے گا اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کا خون چوسنے والی آئی پی پیز سے قوم کو نجات مل جائے گی۔ جہاں تک توانائی کے شعبے میں نئے منصوبے پروان چڑھنے کا معاملہ ہے تو یہ کئی حوالوں سے خوش آئند ہے کہ ملک میں توانائی بحران کے باعث ترقی کا سفر بری طرح متاثر ہوا ہے اور دیکھا جائے تو وہی ممالک ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں جن کے پاس توانائی کے وسائل کی فراوانی ہے اور پھر وہ ان وسائل کو بھرپور انداز میں بروئے کار لا رہے ہیں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم مقصد دنیا بھر میں موجود توانائی کے ذرائع تک رسائی ہے اور اس وقت بھی چین دنیا میں سب سے زیادہ توانائی استعمال کرنے والا ملک ہے یعنی کسی بھی ملک کی ترقی کا پیمانہ اگر توانائی کے ذرائع کی دستیابی اور ان کا استعمال قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا اور پھر قدرت نے ہمیں پانی کی صورت میں جس اہم ذریعے سے نوازا ہے اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔