بی آرٹی۔۔۔۔۔۔

جب پرویز خٹک کی حکومت میں بی آرٹی کامنصوبہ شروع کیاگیا تو سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اس کی مدت تکمیل چھ ماہ رکھی گئی ماہرین حیران اور سنجیدہ فکر عناصر پریشان ہوکررہ گئے صاف دکھائی دے رہاتھاکہ یہ منصوبہ کسی بھی صورت دو سال سے قبل مکمل نہیں ہوسکے گا تاہم پی ٹی آئی اورخاص طورپر پرویز خٹک کی خوش قسمتی سے الیکشن کے بعد ایک بارپھر پی ٹی آئی برسراقتدار آگئی محمود خان وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے بی آرٹی کی تکمیل کو اولین ترجیحات میں شامل کردیا اورپھر خدا خدا کر کے گذشتہ برس چودہ اگست کو بی آرٹی روٹ پر بسیں چل پڑیں یوں پشاور میں پاکستان کی پہلی تھرڈ جنریشن بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کو سات ماہ مکمل ہوگئے اس عرصہ میں شہریوں نے جس طرح اس منصوبہ کو پذیرائی بخشی اس سے ثابت ہوگیاکہ بی آر ٹی پشاور کا ایک کامیاب اور بہترین سفری منصوبہ ہے منصوبے میں پاکستان میں پہلی بار ہائبرڈ ڈیزل بسوں کا استعمال کیا گیا جن کی بدولت آپریشنل اخراجات میں 33 فیصد کمی واقع ہوئی گذشتہ ماہ سامنے آنےوالے اعدادوشمار کے مطابق بی آر ٹی پشاور میں 2کروڑ 50 لاکھ سے زائد مسافروں سے سفر کیا 6 ماہ میں 7 لاکھ سے زائد زوکارڈ تقسیم کئے گئے 4 فیڈر روٹس کا اجراءکیا گیا پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پراجیکٹ زو بائی سائیکل شیئرنگ سسٹم کا آغاز کیا گیا اور 360 جدید زو بائی سائیکلز متعارف کرائی گئیں شہر میں پرانے ، فرسودہ اور خستہ ترین نظام ٹرانسپورٹ کو بین الاقوامی معیار کے سفری نظام سے تبدیل کیا گیا اور اب تک 84 سے زائدپرانی بسوں اور ویگنوں کو سکریپ کرکے مالکان کو طے شدہ ریٹ پر معاوضے کی ادائیگی کردی گئی ہے اسی طرح ابتدائی 6 ماہ کے دوران موصول ہونے والی 6 ہزار شکایات کو حل کیا گیا اس عرصہ میں بی آر ٹی کو 6 ماہ میں 75 کروڑ سے زائد کی آمدن ہوئی کچھ عرصہ قبل تک بی آر ٹی کو ایک ناکام منصوبہ کہا جاتا رہا اپوزیشن والے اس منصوبے کی سخت مخالفت کرتے تھے لیکن اب یہ منصوبہ ہر لحاظ سے کامیاب ہے اور اس کی آمدن میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ، اس کا کرایہ بھی مناسب ہے مسافروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر بی آر ٹی کیلئے مزید بسوں کی ضرورت ہے تاہم اس وقت بی آرٹی کے ملازمین کو جن مشکلات کاسامناہے اس پر بھی توجہ کی ضروت ہے ٹرانس پشاور کمپنی کے افسران تو بڑی بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں مگر پورا سسٹم چلانے والا سٹاف نہ صرف ملازمت کی عد م سیکورٹی کے شاکی ہیںبلکہ معمولی معمو لی باتوں پر اپنی معمولی تنخواہوں میں بڑھتی کٹوتیوں کی وجہ سے مایوسی کابھی شکار ہیں سب سے بڑی زیادتی یہ کی جارہی ہے کہ بی آرٹی سٹیشنوں میں کام کرنے والی خواتین سیکورٹی اہلکاروں کو مسلسل آٹھ گھنٹے کھڑا رہنے کاپابند بنایاگیاہے بلکہ بسا اوقات تو واش رومز جانے پر بھی پابندی کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں یہ غالبا پورے ملک میں خواتین ملازمین کےساتھ ناانصافی کی سب سے بڑی مثال ہے ان ملازمین کابی آرٹی کی کامیاب سروس میں پوراپورا کردار ہے اس لیے ٹرانس پشاور نامی کمپنی کو ان شکایات کافوری ازالہ کرناچاہئے اس ضمن میںکمپنی کے سی ای او، وزیر ٹرانسپورٹ ،چیف سیکرٹر ی اور خود و زیر اعلیٰ محمود خان کو بھی مداخلت کرکے اس کامیاب منصوبے کو بدنام اور ناکام بنانے کی تمام کوششوں کا تدارک کرناچاہئے ۔