قوم کی قابل فخر بیٹیاں۔۔۔۔

پاکستان نے طب کے شعبے میں ایک اور عالمی اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ پاکستانی خاتون ڈاکٹرعظمی زیدی نے یورپین بون میرو ٹرانسپلانٹ فزیشن کا امتحان پاس کر کے عالمی اعزاز حاصل کرلیا۔ اس سے قبل پاکستان کی ایک اور بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ نے بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کا نام روشن کیا تھا۔ ڈاکٹر زبیدہ کا تعلق اپرچترال کے دورافتادہ علاقہ یارخون سے ہے۔ ان کے والد شیر ولی خان اسیر ماہر تعلیم ہیں انہیں استادالاساتذہ بھی کہا جاتا ہے ان کے شاگرد اندرون و بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر زبیدہ کی والدہ بیگم شیر ولی خان تدریس کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے چترال سے قومی اسمبلی کی نشست پر بیگم نصرت بھٹو کے مقابلے میں انتخاب لڑ کرملک گیر شہرت حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ نے ایم بی بی ایس کی ڈگری آغاخان میڈیکل کالج کراچی سے حاصل کی۔ امراض چشم کے علاج کا شعبہ اختیار کیا۔ اس شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لئے ائرلینڈ کا رخ کیا۔ وہاں سے سپشلائزیشن کرنے کے بعد ایک کتاب لکھی ۔آنکھوں کی بیماری اور ان کے علاج سے متعلق ان کی کتاب کو ایمازون نے بیسٹ سیلنگ بک قرار دیا ہے اور یہ کتاب ایم بی بی ایس اور آپٹامولوجی کی سپشلائزیشن کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ڈاکٹر زبیدہ کو آئرلینڈ اور لندن میں ملازمت کی پیش کش ہوئی مگر انہوں نے یہ کہہ کر پرکشش ملازمت کی آفر قبول کرنے سے معذرت کی کہ میری اپنی قوم کو میری خدمات کی زیادہ ضرورت ہے اور وہ اپنے ملک میں جاکر اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان واپسی کے بعدآغا خان یونیورسٹی ہسپتال نے ان کی خدمات حاصل کیں اور وہ انہیں گلگت بلتستان میں امراض چشم کے شعبے کی سربراہی سونپ دی۔ ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ گلگت بلتستان، چترال اور خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں میں آنکھوں کے علاج کے مراکز قائم کرنا چاہتی ہیں تاکہ دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کے غریب لوگوں کو ان کے گھروں کے قریب امراض چشم کے علاج کی بہترین سہولیات میسر آسکیں۔بلاشبہ ڈاکٹر زبیدہ سیرنگ اور ڈاکٹر عظمیٰ زیدی اس قوم کا اثاثہ ہیں۔صلاحیتوں سے مالامال اس قوم میں ایسے سینکڑوں ہزاروں بیٹیاں اور بیٹے موجود ہیں جو اپنی قوم کی بے لوث خدمت کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ زبیدہ اور عظمیٰ جیسی بیٹیاں اپنے عزم و ہمت اور والدین کی حوصلہ افزائی کی بدولت آگے بڑھتی ہیں اور کچھ نمایاںکارنامے انجام دیتی ہیں مگر ہزاروں لاکھوں بچیوں کو سماجی پابندیوں، خاندانی روایات اور رسومات کی بھینٹ چڑھا کر ان کی خداداد صلاحیتوں کو جیتے جی ماردیا جاتا ہے۔ہم ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ہسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز، نرسیں، سکول ٹیچرز، لیڈیز پولیس اور ہیلتھ ورکرز جو دن رات قوم کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ اگر وہ تعلیم و تربیت حاصل نہ کرتیں تو ہماری بیٹیوں اور بہنوں کو کون پڑھاتی، ہسپتالوں میں ہماری ماں، بہنوں اور بیٹیوں کا علاج کون کرتی۔ایک بیٹی کو پڑھانا پورے خاندان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔دین اسلام کا پہلا سبق ہی حصول علم سے متعلق ہے۔ اور علم حاصل کرنے کو مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیا گیا ہے۔